وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
اور (یہ بھی ہوچکا ہے کہ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور واضح سند کے ساتھ بھیجا تھا۔
[١٠٨] فرعون کو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی دعوت :۔ سورۃ بقرہ اور پھر سورۃ اعراف میں موسیٰ علیہ السلام کے حالات اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے بیان فرمائے۔ لیکن یہاں نہایت اختصار کے ساتھ ان کی دعوت اور اس کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے۔ اجمال ہو یا تفصیل کسی واقعہ سے اصل مقصود تو انسان کا اس واقعہ سے یا بدکرداروں کے انجام سے عبرت حاصل کرنا ہے اور وہ ان تین آیات میں بھی ذکر کردیا گیا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام خود بڑے مضبوط جسم کے، طاقتور، جرأت مند اور جلالی طبیعت کے مالک تھے اور انھیں جس جابر و قاہر بادشاہ کی طرف بھیجا گیا اس کی نخوت اور قہر مانی کا یہ عالم تھا کہ خود خدا بنا بیٹھا تھا اور اس کی رعایا اسے فی الواقع اپنا خدا تسلیم کرتی تھی۔ اسی لیے آپ کو نبوت کے ساتھ ہی دو ایسے واضح معجزے بھی بن مانگے عطا کیے گئے تھے جن کی بنا پر آپ فرعون جیسے دبدبہ اور شان و شوکت والے بادشاہ کے سامنے کھل کر اپنی دعوت پیش کرنے کے قابل ہوگئے چنانچہ آپ بلاروک ٹوک فرعون کے کھلے دربار میں چلے گئے اور سب درباریوں کے سامنے اسے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا کہ وہ ایک اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرلے اور اپنی خدائی کے دعویٰ سے دستبردار ہوجائے اور بنی اسرائیل پر ظلم کرنا چھوڑ دے اور انھیں اپنی غلامی سے آزاد کرکے انھیں (سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے) ہمراہ کردے۔