وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَأَخَذَتِ الَّذِينَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ
اور پھر جب ہماری (ٹھہرائی ہوئی) بات کا وقت آپہنچا تو ایسا ہوا کہ ہم نے شعیب کو اور ان کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی رحمت سے بچا لیا اور جو لوگ ظالم تھے انہیں ایک سخت آواز نے آپکڑا، پس جب صبح ہوئی تو اپنے اپنے گھروں میں اوندھے پڑے تھے۔
[١٠٦] اہل مدین پر عذاب کی نوعیت :۔ یہاں قوم شعیب کا چنگھاڑ (فرشتہ کی چیخ) سے ہلاک ہونا مذکور ہے اور اعراف میں زلزلہ کا ذکر ہوا ہے اور سورۃ شعراء میں عذاب یوم الظلۃ کا ذکر ہے یعنی عذاب کے بادل سائبان کی طرح ان پر محیط ہوگئے تھے گویا اس قوم پر تینوں قسم کا عذاب آیا ہے اور قرآن نے ہر مقام پر صرف اس عذاب کا ذکر فرمایا جیسا کہ مضمون چل رہا تھا مثلاً اس سورۃ میں قوم کا لہجہ تلخ اور باتیں گستاخانہ تھیں جو سنگسار کرنے کی دھمکی دے رہے تھے تو یہاں سخت قسم کے جگر خراش عذاب یعنی چنگھاڑ کا ذکر فرمایا سورۃ اعراف میں یہ ذکر تھا کہ قوم نے دھمکی دی تھی کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو اس سرزمین سے نکال دیں گے تو وہ خود اسی سر زمین کے زلزلے سے ہلاک ہوئے تھے اور سورۃ شعراء میں یہ مضمون ہے کہ قوم نے شعیب علیہ السلام سے کہا : ’’اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو‘‘ اسی مناسبت سے وہاں عذاب کے بادلوں کا ذکر فرمایا اور یہ ممکن ہے کہ ہر مقام پر عذاب کی مختلف اوقات کی کیفیت مذکور ہو۔ [ ١٠٧] اس سہ گونہ عذاب سے وہ اپنے اپنے گھروں میں ہی مرگئے اور اوندھے منہ زمین سے اس لیے چمٹ گئے تھے کہ عذاب کی تکلیف کچھ کم محسوس ہو اور ان کا یہ علاقہ یوں ویران اور بے آباد نظر آتا تھا جیسے کبھی کوئی وہاں آباد ہوا ہی نہ تھا۔