قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَن يَنصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ ۖ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ
صالح نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! کیا تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنی رحمت مجھے عطا فرمائی ہو تو پھر کون ہے جو اللہ کے مقابلہ میں میری مدد کرے گا اگر میں اس کے حکم سے سرتابی کروں؟ تم (اپنی توقع کے مطابق دعوت کار دے کر) مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے، تباہی کی طرف لے جانا چاہتے ہو۔
[٧٥] منکرین کا صالح علیہ السلام سے اصل مطالبہ یہ تھا کہ تم اپنے آباؤ اجداد کے دین کو بدنام نہ کرو اور اس میں واپس آجاؤ اور ہمارے لیے پریشانی کا سبب نہ بنو اس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ جو کچھ تم کہتے اور کرتے ہو میرا ضمیر اسے پہلے بھی قبول نہیں کرتا تھا پھر اللہ نے مجھے نبوت سے نوازا ہے کہ میں اس کا پیغام تم لوگوں تک پہنچاؤں اب اگر میں تمہاری بات مانوں تو ایک تو اللہ کا مجرم بنوں جس کی گرفت سے مجھے کوئی بھی بچا نہ سکے گا دوسرے اپنے ضمیر کی آواز کو کچلوں اور ہر طرف سے نقصان اٹھاؤں۔ میں ایسا کبھی نہیں کرسکتا۔