وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ
اور ہم نے قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی بندوں میں سے صالح کو بھیجا۔ اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، وہی ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور پھر اسی میں تمہیں بسا دیا، پس چاہیے کہ اس سے بخشش مانگو اور اس کی طرف رکوع ہو کر رہو۔ یقین کرو، میرا پروردگار (ہر ایک کے) پاس ہے، اور (ہر ایک کی) دعاؤں کا جواب دینے والا ہے۔
[٧٠] یعنی پہلے آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا پھر تمہاری تمام تر ضروریات زندگی اسی زمین سے وابستہ کردیں اور اسی پر تمہاری آباد کاری کا بندوبست کیا۔ [٧١] یعنی یہ سب کام تو اللہ نے کیے ہیں بتاؤ کہ تمہارے معبودوں نے ان میں سے کون سا کام کیا ہے؟ جو تم ان کی پرستش کرتے ہو اگر تم اللہ کے خالق و رازق ہونے کو تسلیم کرتے ہو تو پھر تمہیں اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اسی کی اطاعت کرنا چاہیے اور اپنے گناہوں کے لیے اسی سے معافی مانگو کیونکہ تم یہ مشرکانہ افعال کرتے رہے ہو۔ [٧٢] اللہ گناہ گاروں کی بھی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے :۔ دنیا دار اور جاہ طلب مذہب کے ٹھیکیداروں نے عام لوگوں کے ذہن میں یہ عقیدہ راسخ کردیا ہے کہ جس طرح ایک بادشاہ تک درخواست گزارنے کے لیے بادشاہ کے مقرب لوگوں کی ضرورت پیش آتی ہے انہی کے ذریعہ اپنی معروضات کو بادشاہ تک پیش کیا جاتا ہے اور بادشاہ نے جو کچھ جواب دینا ہو وہ بھی انھیں لوگوں کے ذریعہ مل سکتا ہے۔ سب سے بڑے بادشاہ اللہ تعالیٰ کی بھی یہی صورت ہے۔ لہٰذا اللہ کے حضور اپنی معروضات پیش کرنے کے لیے اللہ کے مقربین کا وسیلہ تلاش کرنا ضروری ہے اور ان مقربین سے مراد ان کی اپنی ذات یا معبودان باطل یا فوت شدہ بزرگ وغیرہ ہوتے ہیں جن کے یہ مجاور وغیرہ ہوتے ہیں یہ شیطانی عقیدہ اس قدر گمراہ کن ہے کہ شرک کی بے شمار اقسام اسی ایک عقیدہ سے پیدا ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے اس عقیدہ کی دو لفظوں میں تردید فرما دی۔ یعنی ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کے قریب ہے وہ ہر ایک کی بات سن سکتا ہے اور سنتا ہے دوسرے یہ کہ وہ گنہگاروں کی دعائیں بھی ایسے ہی قبول کرتا ہے جیسے مقربین کی۔ بشرطیکہ دعا کے آداب کو ملحوظ رکھا جائے۔ واضح رہے کہ کسی نیک آدمی سے اپنے حق میں اللہ سے دعا کرانا اس ضمن میں نہیں آتا اور یہ شرعاً ثابت ہے بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ گنہگاروں کی بات نہ سنتا ہے اور نہ اسے قبول کرتا ہے پھر جن لوگوں کو وسیلہ بنایا جاتا ہے ان کے لیے نذر و نیاز اور ان کی تعظیم ایسے ہی کی جاتی ہے جیسے اللہ کے لیے سزاوار ہے۔ مندرجہ بالا مفہوم کے لحاظ سے اس جملہ میں قریب اور مجیب دونوں اللہ تعالیٰ کی الگ الگ صفات ہیں لیکن بعض لوگوں نے قریب کو بھی مجیب ہی کی صفت قرار دیا ہے اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا : ’’بلاشبہ میرا پروردگار جلد ہی (دعائیں) قبول کرنے والا ہے‘‘