فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ
اس پر قوم کے ان سرداروں نے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی کہا ہم تو تم میں اس کے سوا کوئی بات نہیں دیکھتے کہ ہماری ہی طرح کے ایک اادمی ہو اور جو لوگ تمہارے پیچھے چلے ہیں ان میں ان ان لوگوں کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا جو ہم میں کمینے ہیں اور بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے ہو لیے ہیں۔ ہم تو تم لوگوں میں اپنے سے کوئی برتری نہیں پاتے۔ بلکہ سمجھتے ہیں تم جھوٹے ہو۔
[٣٤] یہ وہی اعتراض ہے جو کہ منکرین حق کی طرف سے تمام انبیاء پر ہوتا رہا ہے جن کے خیال میں نبی کو یا تو مافوق البشر مخلوق ہونا چاہیے یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہر وقت رہنا چاہیے یا کم از کم دنیوی وجاہت کے لحاظ سے یعنی مال و دولت اور شان و شوکت کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر ہونا چاہیے۔ جب تک ان کے نظریہ کے مطابق نبی کو ان چیزوں میں سے کوئی امتیازی چیز حاصل نہ ہو وہ نبی نہیں ہوسکتا۔ [٣٥] کسی نبی کے ابتدائی پیر وکاروں کے خصائل :۔ منکرین حق کا دوسرا بڑا اعتراض یہی ہوتا ہے کہ کیونکہ نبی پر سب سے پہلے ایمان لانے والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو معاشرہ اور قوم کے چودھریوں کے ہاتھوں ستم رسیدہ ہوں، غریب ہوں، نوجوان اور باہمت ہوں اور جو ایسے ظالمانہ معاشرہ کے سامنے ڈٹ جانے کی کچھ جرأت بھی رکھتے ہوں ایسے ہی لوگ ہر نبی کا ابتدائی سرمایہ ہوتے ہیں اور یہی لوگ قوم کے چودھریوں کی نظروں میں کھٹکتا خار بن جاتے ہیں حتیٰ کہ چودھری لوگ ان کی موجودگی میں نبی کے پاس بیٹھنا اور کوئی بات سننا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ان چودھریوں کے نظریات چونکہ خالصتاً مادہ پرستانہ ہوتے ہیں لہٰذا نبی کی دعوت کو رد کرنے کا انھیں یہ بہانہ بھی ہاتھ لگ جاتا ہے کہ اس نبی کے ہم نشین تو رذیل قسم کے لوگ ہیں لہٰذا ہم اسے سچا کیسے سمجھ سکتے ہیں کچھ شریف لوگ اس کے پیروکار ہوتے تو ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھتے اور اس نبی کی بات سنتے۔