وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۚ أُولَٰئِكَ يُعْرَضُونَ عَلَىٰ رَبِّهِمْ وَيَقُولُ الْأَشْهَادُ هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو جھوٹ بول کر اللہ پر بہتان باندھے؟ جو ایسا کر رہے ہیں وہ اپنے پروردگار کے حضور پیش کیے جائیں گے اور اس وقت گواہ گواہی دیں گے کہ یہ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ بولا۔
[٢ ٢] اللہ پر جھوٹ لگانے کی مختلف صورتیں :۔ افتراء کے معنی یہ ہے کہ کوئی بات خود ایجاد کرکے اللہ کے ذمہ لگا دی جائے یا اسے شریعت سے ثابت کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ کام گناہ کبیرہ ہے پھر افتراء کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ مثلاً کسی حلال چیز کو حرام یا حرام کو حلال قرار دینا اور شریعت کا حکم ثابت کرنا یا اللہ کے سوا کسی دوسرے بزرگ، نبی یا پیر فقیر کو یا آستانے کو اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھنا یا یہ سمجھنا کہ اگر قیامت کو ہم سے مواخذہ ہوا تو ہمارے پیروں میں اتنی قدرت ہے کہ وہ ہمیں چھڑا لیں گے یا منزل من اللہ کلام کو منزل من اللہ نہ سمجھنا اور یہ سب باتیں شرک یا اس سے ملتی جلتی ہیں ایسے لوگوں سے قیامت کے دن کسی قسم کی رو رعایت نہیں ہوگی۔ علی رؤس الاشہادان کے جرم کو ثابت کرکے قرار واقعی سزا دی جائے گی جبکہ دوسرے مومن گنہگاروں سے اس قسم کی سختی نہ ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے نرمی کا سلوک اختیار کریں گے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سستی نجات کا عقیدہ رکھنے والے دراصل آخرت کے منکرہیں :۔ ایک دفعہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما طواف کر رہے تھے کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا : ابن عمر ! سرگوشی کے متعلق آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ (جو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مومنوں سے کرے گا) انہوں نے کہا : میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے : مومن اپنے پروردگار کے قریب لایا جائے گا یہاں تک کہ پروردگار اپنی ایک جانب کرلے گا پھر اس کے سارے گناہ اسے بتلائے گا اور فرمائے گا ’’فلاں گناہ تجھے معلوم ہے؟‘‘ مومن کہے گا ’’پروردگار! مجھے معلوم ہے‘‘ دوبارہ یہی سوال و جواب ہوگا پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’دنیا میں میں نے تیرا گناہ چھپائے رکھا اور آج تجھے معاف کرتا ہوں‘‘ پھر اس کی نیکیوں کا دفتر لپیٹ دیا جائے گا (اس کو دے دیا جائے گا) رہے دوسرے لوگ یا کافر لوگ۔ تو شہادتیں مکمل ہوجانے کی بنا پر ان کے متعلق اعلان کیا جائے گا کہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) [٢ ٢۔ الف] اشہاد۔ شاہد کی جمع بھی آتی ہے جیسے صاحب کی جمع اصحاب آتی ہے اور شہید کی بھی جیسے شریف کی جمع اشراف آتی ہے اور یہ گواہ فرشتے اور کراماً کاتبین بھی ہوسکتے ہیں۔ انبیاء بھی، عامۃ الناس بھی اور جب اپنا جرم تسلیم نہ کرنے پر اصرار کریں گے تو اس کے اعضاء و جوارح بھی اس کے خلاف گواہی دیں گے اور شہادتوں کی بنا پر ہی اس پر فرد جرم عائد کی جائے گی کہ فی الواقع ان لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا۔