سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
جو لوگ عقل و بصیرت سے محروم ہیں وہ کہیں گے مسلمان جس قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے کیا بات ہوئی کہ ان کا رخ اس سے پھر گیا؟ (اے پیغمبر) تم کہو پورب ہو یا پچھم سب اللہ ہی کے لیے ہے (وہ کسی خاص مقام یا جہت میں محدود نہیں) وہ جس کسی کو چاہتا ہے (کامیابی و سعادت کی) سیدھی راہ دکھا دیتا ہے
[١٧٤]قبلہ اول خانہ کعبہ ہی تھا:۔ تحویل قبلہ کے ضمن میں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تمام امت مسلمہ کے لیے قبلہ اول خانہ کعبہ ہی تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اسے تعمیر کیا تو بھی یہی قبلہ تھا اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے تعمیر کیا تو اس وقت بھی یہی قبلہ تھا۔ مگر جب سلیمان علیہ السلام نے ہیکل سلیمانی تعمیر کیا۔ تو اس وقت تابوت سکینہ صخرہ پر پڑا رہتا تھا اور بنی اسرائیل اس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے مستقل طور پر اسے ہی اپنا قبلہ بنا لیا اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر کوئی گرفت نہ ہوئی تھی۔ لہٰذا یہ قبلہ شرعاً بھی درست سمجھا گیا۔ مگر یہ صرف بنی اسرائیل ہی کا قبلہ تھا۔ مکہ کے مشرکین کا نہ تھا۔ وہ کعبہ کی ہی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداءً بیت المقدس کوقبلہ کیوں بنایاتھا؟ چونکہ مشرکین مکہ کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کو بہتر سمجھتے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے بجائے بیت المقدس کی طرف رخ کرنا مناسب سمجھا تاکہ مشرکین مکہ کے قبلہ سے امتیاز ہو سکے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی ہی طرف منسوب کیا :۔ جیسا کہ آیت ﴿وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ﴾ (۱۴۳:۲)سے واضح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس کی طرف رخ کرنے یا قبلہ بنانے کا حکم قرآن یا حدیث میں صراحتاً کہیں مذکور نہیں۔ ممکن ہے کہ وحی خفی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا حکم دیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بصیرت سے ہی بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا طرز عمل اختیار کیا ہو وہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اقرار (سکوت) ہو تو بھی وحی تقریری کا حکم رکھتا ہے۔ بہرحال بیت المقدس کی طرف مسلمانوں کے رخ کر کے نماز ادا کرنے کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنا ہی حکم قرار دیا ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ کسی قوم کے قبلہ کو تسلیم کرلینا فی الحقیقت اس قوم کی قیادت و امامت کو تسلیم کرلینے کے مترادف ہوتا ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ابتدائی دور میں بیت المقدس کو قبلہ بنایا تو اس کی ایک وجہ تو بوجہ شرک مشرکین مکہ کی مخالفت تھی، دوسرے اس میں مسلمانوں کا امتحان بھی مقصود تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آیت ﴿لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ﴾ اور وہ امتحان اس طرح تھا کہ ہر قوم کو اپنے شعائر سے انتہائی عقیدت ہوتی ہے اور مکہ میں اسلام لانے والے چونکہ مشرکین مکہ میں سے ہی ہوتے تھے۔ اس لیے فی الواقعہ ان کا اس بات میں بھی امتحان تھا کہ وہ اسلام لانے کے بعد کتنی فراخدلی سے اپنے آبائی قبلہ (کعبہ) کو چھوڑ کر بیت المقدس کو اپنا قبلہ بناتے ہیں۔ مدینہ میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکعبہ کو قبلہ بنانے کی آرزو کیوں پیدا ہوئی ؟ ہجرت کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو اب صورت حال بالکل مختلف تھی۔ مسلمانوں کی ایک آزاد چھوٹی سی ریاست وجود میں آ چکی تھی اور اب بیت المقدس کو قبلہ بنائے رکھنا ذہنی طور پر یہود کی امامت کو تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔ لہٰذا اب آپ یہ چاہتے تھے کہ حقیقی قبلہ اول یعنی خانہ کعبہ ہی مستقل طور پر مسلمانوں کا قبلہ قرار پائے اور اس توقع میں کئی بار آسمان کی طرف رخ پھیرتے کہ شائد کسی وقت جبرئیل ایسا حکم لے کر نازل ہو۔ چنانچہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ اسی طرف رخ کر کے نماز پڑھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے یہ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ کعبہ کی طرف ہو۔ چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھی اور لوگوں نے بھی پڑھی۔ پھر ان میں سے ایک شخص جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا۔ دوسری مسجد والوں پر گزرا جبکہ وہ نماز ادا کر رہے تھے۔ اس نے کہا اللہ گواہ ہے میں نے ابھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ (کعبہ) کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے’’ تو اسی حالت میں کعبہ کی طرف گھوم گئے (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت مذکورہ) یہی مسجد بعد میں مسجد قبلتین کے نام سے مشہور ہوئی۔ تحویل قبلہ کے لوگوں پرا ثرات اور اعتراض :۔تحویل قبلہ کا دراصل مطلب یہ تھا کہ اب بیت المقدس کی مرکزیت ختم ہوچکی اور آئندہ ہمیشہ کے لیے خانہ کعبہ کو امت مسلمہ کا مرکز قرار دے دیا گیا۔ اب اس تحویل قبلہ کا یہود پر منفی اثر ہونا ایک لازمی امر تھا۔ چنانچہ یہی براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جن نادانوں (تنگ نظر لوگوں) نے یہ اعتراض کیا تھا کہ مسلمانوں کو ان کے پہلے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا ہے۔ یہ یہودی لوگ تھے۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب التوجہ نحوالقبلۃ) چنانچہ یہود نے اس واقعہ کو بھی ایک بنیاد بنا کر ضعیف الاعتقاد اور کم فہم مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنا شروع کردیئے۔ [ ١٧٥] یہود کے اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے نہایت خوبصورت انداز میں پیش کردیا۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہیے کہ مشرق بھی اللہ کے لیے ہے اور مغرب بھی۔ اس نے بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا حکم دیا تو ہم نے اس کو تسلیم کرلیا اور اب کعبہ کو قبلہ بنایا تو بھی ہم نے تسلیم کرلیا اور اللہ کا حکم تسلیم کرلینا ہی سیدھی راہ ہے اور یہ راہ وہ جسے چاہے دکھا دے۔