سورة ھود - آیت 17

أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر دیکھو جو لوگ اپنے پروردگار کی جانب سے ایک روشن دلیل رکھتے ہوں (یعنی وجدان و عقل کا فیصلہ) اور اس کے ساتھ ہی ایک گواہ بھی اس کی طرف سے آگیا ہو ( یعنی اللہ کی وحی) اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی پیشوائی کرتی ہوئی اور سر تا پارحمت آچکی ہو ( اور تصدیق کر رہی ہو تو کیا ایسے لوگ انکار کرسکتے ہیں؟ نہیں) یہ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور (ملک کے مختلف) گروہوں میں سے جو کوئی اس سے منکر ہوا تو یقین کرو (دوزخ کی) آگ ہی وہ ٹھکانا ہے جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ پس (اے پیغمبر) تو اس کی نسبت کسی طرح کے شک میں نہ پڑیو ( یعنی دعوت قرآن کی کامیابی کے بارے میں کسی طرح کا شک نہ کیجیو) وہ تیرے پروردگار کی جانب سے امر حق ہے۔ لیکن (ایسا ہی ہوتا ہے) کہ اکثر آدمی (سچائی پر) ایمان نہیں لاتے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٠] دونوں شہادتوں کے بعد بھی ایمان نہ لانے والے :۔ یہاں واضح دلیل سے مراد داعیہ فطرت یا عہد الست ہے جو ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے الاعراف کی آیت نمبر ١٧٢، ١٧٣) اب اگر اس آیت میں شخص سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات لی جائے تو شاہد سے مراد جبرئیل علیہ السلام ہیں اور اگر شخص سے مراد عام آدمی لیا جائے تو شاہد سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یعنی یہ داعیہ فطرت ہر انسان کے تحت الشعور میں پہلے سے ہی موجود ہے کہ اس کائنات کا اور خود ہمارا بھی خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہوسکتا پھر اس داعیہ کی تائید میں خارج سے دو قوی شاہد بھی مل جائیں جن میں سے ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن ہے اور دوسرے تورات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدتوں پہلے نازل ہوئی تھی تو کیا ایسے شخص کے ایمان لانے میں کوئی چیز آڑے آسکتی ہے اسے فوراً اس داعیہ فطرت پر لبیک کہتے ہوئے ایمان لے آنا چاہیے اور جو پھر بھی ایمان نہیں لاتا اس کا علاج دوزخ کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے خواہ وہ شخص کسی بھی مذہب اور فرقہ سے تعلق رکھتا ہو؟ [١ ٢] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ خطاب صرف بطور تاکید مزید ہے اصل میں اس کے مخاطب عام لوگ ہیں جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے بیان کی جاچکی ہے۔