سورة ھود - آیت 12

فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر (اے پیغمبر) کیا تو ایسا کرے گا کہ جو کچھ تجھ پر وحی کیا جاتا ہے اس میں سے کچھ باتیں چھوڑ دے گا اور اس کی وجہ سے دل تنگ رہے گا؟ اور یہ اس لیے کہ لوگ کہہ اٹھیں گے اس آدمی پر کوئی خزانہ (آسمان سے) کیوں نہیں اتر آیا؟ یا ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس کے ساتھ ایک فرشتہ آکر کھڑا ہوجاتا؟ (نہیں تجھے تو دل تنگ نہیں ہونا چاہیے) تیرا مقام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ (انکار و بدعملی کے نتائج سے) خبردار کرنے والا ہے (تجھ پر اس کی ذمہ داری نہیں کہ لوگ تیری باتیں مان بھی لیں) اور ہر چیز پر اللہ ہی نگہبان ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٥] آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش مکہ کے معبودوں کو نہ کوئی گالی دیتے تھے اور نہ ہی انھیں برا بھلا کہتے تھے بلکہ صرف یہ کہتے تھے کہ تمہارے یہ معبود نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں اور اسی بات پر مشرکین چڑ جاتے تھے کیونکہ اس بات کو وہ اپنے معبودوں کی بھی توہین تصور کرتے تھے اپنی بھی اور اپنے آباؤ اجداد کی بھی۔ اس بات کا کوئی معقول جواب تو ان کے پاس تھا نہیں اس کے بجائے وہ یہ کرتے کہ کبھی اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق اڑانے لگتے، کبھی تکذیب کرتے اور کبھی کچھ اعتراضات یا مطالبے شروع کردیتے ممکن ہے ان کی مسلسل اس قسم کی حرکات کے نتیجہ میں آپ کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ انھیں ایسی آیات سنانے کا کیا فائدہ ہے جبکہ وہ ایمان لانے کے بجائے الٹا چڑ جاتے ہیں اور پھبتیاں کسنے لگتے ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ان باتوں سے آپ کو رنجیدہ خاطر اور تنگ دل نہ ہونا چاہیے جو وحی آپ پر نازل ہو رہی ہے آپ انھیں سنا دیا کریں۔ آپ کی اتنی ہی ذمہ داری ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ ان سے خود نمٹ لے گا۔ قریش کی معجزہ طلبیاں :۔ قریش مکہ کے اعتراضات یا مطالبات میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اگر تم واقعی اللہ کے پیغمبر ہو تو تم پر اللہ کی طرف سے کوئی خزانہ بھی نازل ہونا چاہیے تھا جس سے تمہاری مالی حالت بہتر ہوجاتی اور اس مادی قوت کے بل بوتے پر ہی تم لوگوں کو اپنا ہم نوا بنا سکتے یا کوئی فرشتہ ہی تمہارے ساتھ موجود رہنا چاہیے تھا جس سے تمہیں روحانی طاقت بھی حاصل ہوجاتی اور لوگوں کو بھی تمہاری نبوت کا یقین ہوجاتا اور وہ تم پر ایمان لے آتے جب ان میں سے کوئی بھی چیز تمہیں میسر نہیں تو ہم تم پر کیسے ایمان لے آئیں؟ آپ کافروں کی ان باتوں سے دل گرفتہ نہ ہوں کیونکہ معجزے دکھلانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے آپ کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ اللہ کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں اور انھیں ان کے برے انجام سے ڈرائیں۔ رہی معجزے کی بات تو معجزے دکھلانا اللہ کا کام ہے جو ہر چیز کا مالک و مختار ہے۔