قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ
(اے پیغمبر) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اے لوگو ! تمہارے پروردگار کی طرف سے سچائی تمہارے پاس آگئی ہے، پس جو ہدایت کی راہ اختیار کرے گا تو اپنے ہی بھلے کے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا تو اس کی گمراہی اسی کے آگے آئے گی۔ میں تم پر نگہبان نہیں ہوں (کہ زبردستی کسی راہ میں کھینچ لے جاؤں اور پھر اس سے نکلنے نہ دوں)
[١١٦] ہدایت کے تین اصول، ہدایت قبول کرنے کے فوائد :۔ گویا مندرجہ بالا تین آیات میں مجملاً ہدایت کا مفہوم بیان کردیا گیا ہے جو درج ذیل اصولوں پر مشتمل ہے ہر طرح کے شرک سے مکمل اجتناب، خالصتاً اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھنا اور اسے نفع و نقصان کا مالک سمجھنا اور منزل من اللہ شریعت پر ادھر ادھر دیکھے بغیر پوری یکسوئی کے ساتھ گامزن ہوجانا اور ایسی ہدایت اختیار کرنے والے کو دنیا میں تو یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ کے لیے اسے مکمل رہنمائی حاصل ہوجاتی ہے اور اسے بیرونی نظریات اور فلسفوں کی ضرورت نہیں رہتی اور زندگی ذمہ دارانہ اور پرسکون طور پر گزرتی ہے اور آخرت میں یقیناً فلاح نصیب ہوگی اور جو شخص ایسی ہدایت کو اختیار نہیں کرتا وہ ساری زندگی ادھر ادھر لڑھکتا ہی رہتا ہے اسے دنیا تو اتنی مل ہی جاتی ہے جتنی اس کے نصیب میں ہوتی ہے مگر سکون نہیں مل سکتا اور آخرت میں اس کی تباہی و بربادی یقینی ہے اور اس تباہی کا ذمہ دار وہ خود ہوتا ہے۔