أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ ۗ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
جس کے پاس اللہ کی ایک گواہی موجود ہو اور وہ اسے چھپائے؟ (اور محض اپنی بات کی پچ کے لیے سچائی کا اعلان نہ کرے؟) یاد رکھو جو کچھ بھی تم کر رہے ہو، اللہ اس سے غافل نہیں ہے
[١٧٢] یہود ونصاریٰ کااپنے انبیاء پر یہودی یاعیسائی ہونے کا الزام :۔اس آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ یہودیت اپنے موجودہ نظریات و عقائد کے مطابق تیسری اور چوتھی صدی قبل مسیح میں معرض وجود میں آئی تھی۔ اور عیسائیت اپنے مخصوص نظریات و عقائد کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے مابعد کی پیداوار ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالم لوگ اس بات کو خوب جانتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولاد یعنی حضرت یوسف علیہ السلام وغیرہم۔ اس قسم کی یہودیت اور عیسائیت کی پیدائش سے بہت پہلے وفات پا چکے تھے، مگر ان علمائے یہود و نصاریٰ نے عوام کے ذہن میں یہ بات پختہ کردی تھی کہ یہ مندرجہ بالا انبیائے کرام یہود کے قول کے مطابق یہودی تھے اور نصاریٰ کے قول کے مطابق عیسائی تھے۔ اس پس منظر میں اب اس آیت کو ملاحظہ فرمائیے جس میں اللہ تعالیٰ نے علمائے یہود و نصاریٰ کی اس بددیانتی کو آشکار کیا ہے اور انہیں کتمان شہادت کے مجرم قرار دے کر سب سے بڑے ظالم ٹھہرایا ہے۔