ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنجِ الْمُؤْمِنِينَ
پھر (جب عذاب کی گھڑی آجاتی ہے تو ہمارا قانون ہے کہ) اپنے رسولوں کو اور مومنوں کو اس سے بچا لیتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے اپنے اوپر ضروری ٹھہرا لیا ہے کہ مومنوں کو بچا لیا کریں۔
[١١١] رسول پر ایمان لانے والوں کو عذاب سے بچانا اللہ کی ذمہ داری ہے :۔ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ جب کسی مجرم قوم پر اپنے رسول کی تکذیب کی وجہ سے عذاب نازل کرتا ہے تو وہ وحی کے ذریعہ اس عذاب کی آمد سے رسول کو مطلع کردیتا ہے اور اس عذاب سے بچاؤ کی صورت بھی سمجھا دیتا ہے۔ اس طرح رسول اور اس پر ایمان لانے والے تو اس عذاب سے بچ جاتے ہیں اور مجرمین اس عذاب سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اس آیت میں دراصل اہل مکہ کو انتباہ ہے جو اسلام اور پیغمبر اسلام کی مخالفت میں، اسلام کی راہ روکنے اور مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے میں اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے تھے اور انھیں بتلانا یہ مقصود تھا کہ تمہارا بھی وہی حشر ہونے والا ہے جو سابقہ مجرموں کا ہوچکا ہے اور ان کمزور اور ستم رسیدہ مسلمانوں کو تمہاری چیرہ دستیوں سے بچانا اور انھیں تم پر غالب کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔