وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْعِلْمُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو (اپنے عدہ کے مطابق فلسطین میں) بسنے کا بہت اچھا ٹھکانا دیا تھا اور پاکیزہ چیزوں سے ان کی روزی کا سامان کردیا تھا، پھر جب کبھی انہوں نے (دین حق کے بارے میں) اختلاف کیا تو علم کی روشنی ضرور ان پر نمودار ہوئی (یعنی ان میں یکے بعد دیگرے نبی مبعوث ہوتے رہے لیکن پھر بھی وہ حقیقت پر متفق نہ ہوئے) قیامت کے دن تمہارا پروردگار ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں باہم اختلاف کرتے رہے ہیں (یعنی انہیں معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت حال کیا تھی)
[١٠٣] بنی اسرائیل کا شام کے علاقہ پر قبضہ اور تفرقہ بازی : یعنی ملک مصر میں بھی ان کو غلبہ دیا اور شام میں بھی اور یہ دونوں سر سبز اور شاداب ملک ہیں جہاں ہر طرح کے پھل اور غلے بکثرت پیدا ہوتے ہیں پھر ان مادی نعمتوں کے علاوہ انھیں تورات بھی عطا کی۔ جس میں ان کی زندگی کے ہر شعبہ کے لیے مکمل ہدایات موجود تھیں لیکن بعد میں یہی لوگ کئی فرقوں میں بٹ گئے تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ تورات ان کی صحیح رہنمائی کرنے کے لیے ناکافی تھی بلکہ اس کی وجہ نئے نئے فلسفیانہ مباحث پیدا کرنا، پھر آپس میں اختلاف کرنا، پھر فرقے بنانا اور اپنی اپنی چودھراہٹ کی خاطر ان کی آبیاری کرنا تھی۔ علماء و مشائخ کے حب جاہ نے ان فرقوں میں اتنا تعصب پیدا کردیا تھا کہ ان میں اتحاد کی صورت باقی نہ رہ گئی تھی حالانکہ اگر وہ اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کرتے تو وہ پھر سے متحد ہوسکتے تھے۔ تفرقہ بازی کی وجہ اور اس کا علاج :۔ آج مسلمان بھی اسی فرقہ بازی کی لعنت کا شکار ہیں جس کا شکار یہود اور نصاریٰ ہوچکے تھے اور آج تک شکار ہیں۔ مسلمانوں کے فرقے بھی اسی ہٹ دھرمی اور ضد کا شکار ہیں اور ہر فرقہ اپنے اپنے حال میں مست اور مگن ہے۔ ان فرقوں کے قائدین کے حب مال اور جاہ کی خواہش اور ان کے مناصب سے ان کی دستبرداری ان فرقوں کے متحد ہونے میں آج بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ حالانکہ آج بھی اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت موجود ہے۔ اگر اس کی طرف رجوع کیا جائے تو اتحاد کی صورت آج بھی ممکن ہے بلکہ اتحاد کی ممکنہ صورت یہی ہوسکتی ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف رجوع کیا جائے اور اماموں، علماء اور مشائخ کے اقوال کو کتاب و سنت کے مقابلہ میں درخور اعتناء نہ سمجھا جائے۔