فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ
پس ااج ہم ایسا کریں گے کہ تیرے جسم کو (سمندر کی موجوں سے) بچا لیں گے، تاکہ ان لوگوں کے لیے جو تیرے بعد آنے والے ہیں (قدرت حق کی) ایک نشانی ہو اور اکثر انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں کی طرف سے یک قلم غافل رہتے ہیں۔
[١٠٢] فرعون کی لاش کی حفاظت کا مطلب :۔ یعنی تیری لاش نہ تو سمندر میں ڈوب کر معدوم ہوجائے گی اور نہ مچھلیوں کی خوراک بنے گی، چونکہ فرعون کے ڈوب کر مر جانے کے بعد ایک لہر اٹھی جس نے اس کی لاش کو سمندر کے کنارے ایک اونچے ٹیلے پر پھینک دیا تاکہ باقی لوگ فرعون کا لاشہ دیکھ کر عبرت حاصل کریں کہ جو بادشاہ اتنا طاقتور اور زور آور تھا اور خود خدائی کا دعویدار تھا بالآخر اس کا انجام کیا ہوا ؟ مگر انسانوں کی اکثریت ایسی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی نشانیاں دیکھنے اور ان کا اعتراف کرنے کے باوجود عبرت حاصل نہیں کرتے اور نہ ہی اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ لاش مدتوں اسی حالت میں پڑی رہی اور گلنے سڑنے سے بچی رہی اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنی رہی۔ جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لاش آج تک محفوظ ہے جس پر سمندر کے پانی کے نمک کی تہہ جمی ہوئی ہے۔ جو اسے بوسیدہ ہونے اور گلنے سڑنے سے بچانے کا ایک سبب بن گئی ہے اور یہ لاش قاہرہ کے عجائب خانہ میں آج تک محفوظ ہے۔ واللہ اعلم۔ تاہم الفاظ قرآنی کی صحت اس کے ثبوت پر موقوف نہیں کہ اس کی لاش تاقیامت محفوظ ہی رہے۔ عاشورہ کا روزہ :۔ فرعون کی غرقابی کا واقعہ ١٠ محرم کو پیش آیا تھا اسی لیے یہود فرعون سے نجات کی خوشی کے طور پر روزہ رکھتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا اور یہود کی مخالفت کے لیے ساتھ ٩ محرم یا ١١ محرم کاروزہ رکھنے کا حکم دیا پھر جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہوئے تو اس دن کے روزہ کی حیثیت نفلی روزہ کی سی رہ گئی۔