وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَن تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی (ہارون) پر وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں مکان بناؤ اور اپنے مکانوں کو قبلہ رخ تعمیر کرو۔ نیز (ان میں) نماز قائم کرو اور جو ایمان لائے ہیں انہیں (کامیابی کی) بشارت دو۔
[٩٧] دین کی سربلندی کے لئے جماعتی نظم ونسق اور جماعتی نظم ونسق کے لئے مساجد اور اقامت الصلوٰۃ دونوں ضروری ہیں :۔ طاغوتی اور لادینی حکومتوں میں بھی ان کی رعایا کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق مراسم و عبادات بجا لانے کی اجازت ہوا کرتی ہے اور ایسی عبادت کو اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایک ذاتی معاملہ کی حد تک محدود رکھا جاتا ہے ایسی آزادی سے حکومتوں کو کچھ نقصان بھی نہیں ہوتا اور اگر وہ اتنی آزادی بھی نہ دیں تو حکومتیں چل بھی نہیں سکتیں حکومتوں کو اعتراض صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ مذہبی لوگ سیاست میں دخل دینے لگیں اور انبیاء کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی حکومتوں سے ٹکر لینے کے لیے مسلمانوں میں جماعتی نظام پیدا کرتے ہیں اور اس تنظیم کا اولین مرکز مسجد ہوتی ہے فرعون کے زمانہ میں بھی سیدنا موسیٰ و ہارون علیہما السلام پر ایمان لانے والے نوجوان اور کمزور ہمت بوڑھے لوگ اپنے گھروں میں نماز ادا کرتے تھے جب ان لوگوں نے کافروں سے نجات کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں پیغمبروں کی طرف وحی کی کہ اگر اللہ کی مدد چاہتے ہو تو جماعتی نظم و نسق قائم کرو، چند گھروں کو مسجد کے طور پر منتخب کرلو اور نماز باجماعت کا اہتمام کرو یہی مساجد تمہاری عبادت، تمہاری معاشرت، تمہاری معیشت اور تمہاری سیاست کے بھی مرکز ہوں گے اس طرح جب تم ایک دوسرے کے معاون و رفیق بن جاؤ گے اور خود کو ایک جماعتی نظم میں منسلک کرلو گے تو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ ضرور تمہاری مدد کرے گا اور تمہاری دعاؤں کو ضرور قبول فرمائے گا اور اسی صورت میں تم کامیاب ہوسکو گے۔