سورة یونس - آیت 83

فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِّن قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ ۚ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

تو دیکھو اس پر بھی ایسا ہوا کہ موسیٰ پر کوئی ایمان نہیں لایا مگر صرف ایک گروہ جو اس کی قوم کے نوجوانوں کا گروہ تھا، وہ بھی فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتا ہوا کہ کہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دیں، اور اس میں شک نہیں کہ فرعون ملک (مصر) میں بڑا ہی سرکش (بادشاہ) تھا اور اس میں بھی شک نہیں کہ (ظلم و استبداد میں) بالکل چھوٹ تھا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٩٤] ذریت کے معنی نوجوان جرأ تمند نسل :۔ لفظ ذریت کا لغوی معنی اولاد ہے اور یہاں ذریت سے مراد بنی اسرائیل کی نوجوان نسل ہے ان نوجوانوں میں سے بھی چند آدمیوں نے ہمت کرکے سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کا اعلان کردیا ورنہ بڑے بوڑھے لوگ تو فرعون کی چیرہ دستیوں سے اس قدر خائف تھے کہ دل سے ایمان لانے کے باوجود اپنے ایمان کا اظہار کرنے میں اپنی موت سمجھتے تھے۔ طویل مدت کی غلامی، بڑھاپے کی کمزوری اور فرعون کے مظالم نے انھیں اتنا پست ہمت بنا دیا تھا کہ وہ اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بنی اسرائیل کے یہ چند نوجوان ہی اتنے دلیر ثابت ہوئے کہ انہوں نے پیش آنے والے مصائب و مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا تہیہ کرلیا اور اپنے ایمان کا برملا اعلان کردیا۔ اس طرح موسیٰ علیہ السلام کو کچھ تقویت حاصل ہوگئی اور آپ نے ان نومسلموں کی تربیت شروع کردی اور سمجھایا کہ اب تمہیں نہایت ثابت قدمی اور استقلال کے ساتھ میرا ساتھ دینا ہوگا اور اگر تم اللہ کے فرمانبردار بن کر رہے اور اسی پر بھروسہ کیا تو فرعون تمہارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا۔ موسیٰ علیہ السلام کے اس دور کے حالات اور آپ کے حالات کی مماثلت' نوجوان صحابہ اور ان کی عمریں :۔ بالکل ایسی صورت حال مکہ میں بھی پیش آئی تھی۔ آپ پر جو لوگ ایمان لائے تھے ان میں اکثر نوجوان طبقہ ہی تھا۔ مثلاً سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، جعفر طیار رضی اللہ عنہ ، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہم، یہ سب قبول اسلام کے وقت بیس سال سے کم عمر کے تھے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، بلال بن رباح رضی اللہ عنہ اور صہیب رضی اللہ عنہ کی عمریں بیس سے تیس سال کے درمیان تھیں۔ لے دے کر دو صحابہ کو ہی بڑا کہا جا سکتا ہے ایک سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسال چھوٹے یعنی ٣٨ سال کے تھے اور سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ آپ کے ہم عمر تھے۔ بالفاظ دیگر ان ﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ﴾ میں سے بوڑھا کوئی بھی نہ تھا۔ ابتدائی مراحل میں حق کا ساتھ دینے اور مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہوجانے کے لیے نوجوان خون اور ان کی جرأت ہی کام آتی ہے۔ بوڑھوں کی مصلحت کوشیاں کام نہیں آتیں الاماشاء اللہ۔ [٩٥] یعنی ایسے لوگ جو اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز ذریعہ استعمال کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے اور ان کے لیے کوئی قانونی یا اخلاقی حد ایسی نہیں ہوتی جہاں جاکر وہ رک جائیں۔ فرعون ایسا ہی سرکش، متکبر اور جابر و قاہر قسم کا انسان تھا۔