قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاءُ فِي الْأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ
انہوں نے (جواب میں) کہا، کیا تم اس لیے ہمارے پاس آئے ہو کہ جس راہ پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو چلتے دیکھا ہے اس سے ہمیں ہٹا دو اور ملک میں تم دونوں بھائیوں کے لیے سرداری ہوجائے؟ ہم تو تمہیں ماننے والے نہیں۔
[٩١] فرعون اور درباریوں کے اس جواب سے بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ خوب جانتے تھے کہ سیدنا موسیٰ اور ہارون علیہما السلام جادوگر نہیں ہیں۔ جادوگر کو تو معاشرہ کی ایک حقیر سی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بھلا بڑائی قائم ہوسکتی ہے؟ اور اگر وہ حقیقت کا اعتراف کرلیتے تو اپنے تمام مناصب سے دستبردار ہونا پڑتا تھا۔ لہٰذا انہوں نے وہی جواب دیا جو دلیل سے عاجز اور ضدی لوگ دیا کرتے ہیں کہ تم تو ہمیں اپنے آباؤ و اجداد کے دین سے برگشتہ کرنے آئے ہو مگر ہم تمہارے جھانسے میں کبھی نہیں آئیں گے۔