فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ
پھر اگر (اس پر بھی تم باز نہ آئے اور) مجھ سے روگردانی کی تو (یاد رکھو اپنا ہی نقصان کرو گے) میں جو کچھ کر رہا ہوں اس کے لیے تم سے کسی مزدوری کا طلبگار نہیں ہوا تھا، میری مزدوری تو اللہ کے سوا اور کسی کے پاس نہیں، مجھے (اسی کی طرف سے) حکم دیا گیا ہے کہ اس کے فرمانبردار بندوں کے گروہ میں شامل رہوں۔
[٨٥] اسلامی خدمات اور تبلیغ کی اجرت لینا جائز ہے :۔ یعنی اگر تم لوگوں کو میری نصیحت کی باتیں اچھی نہ لگیں تو بھی میں اس کام سے باز نہیں آنے کا بلکہ تمہیں سمجھاتا ہی رہوں گا کیونکہ مجھے اللہ کا یہی حکم ہے میں اس کی طرف سے مامور ہوں اور اسی کے ذمہ میرا اجر ہے میں نہ تمہارا تنخواہ دار ہوں اور نہ تم سے کچھ طمع رکھتا ہوں کہ اگر تمہیں یہ باتیں پسند نہ آئیں تو تم میری تنخواہ روک دو گے یا مجھے کچھ نہ دو گے۔ میں تم سے ایسی کوئی حرص نہیں رکھتا۔ میں تو صرف اللہ کے حکم کا پابند اور اسی کا فرمانبردار ہوں۔ سیدنا نوح علیہ السلام کے علاوہ باقی انبیاء کا بھی یہی شیوہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء کو عموماً اس وقت مبعوث کیا جاتا ہے جب کسی قوم کے حالات بگڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ کفر و شرک اور ظلم و عدوان عام ہوتا ہے ان حالات میں مخالفین اگر انبیاء کی بات ہی سن لیں تو بڑی بات ہے اور اجر تو اس کے ذمہ ہوتا ہے جس نے انھیں اس کام پر لگایا ہوا ہے اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگر اسلامی حکومت یا مسلمانوں کا کوئی ادارہ کسی کو تبلیغ کے کام پر مامور کرے تو اس حکومت یا ادارہ سے تنخواہ یا اجرت لینا جائز ہے خواہ یہ تبلیغ کا کام اندرون ملک ہو یا بیرون ملک؟ دارالاسلام میں ہو یا دارالحرب میں۔ اگر تبلیغ کرنے والا اس تنخواہ کا محتاج نہیں تو بھی اسے لے لینا چاہیے اور آگے صدقہ کردینا چاہیے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے بھی یہی بات ثابت ہے۔ (بخاری، کتاب الاحکام، باب رزق الحاکم مسلم۔ کتاب الزکوۃ۔ باب اباحۃ الاخذ لمن اعطی من غیر مسئلۃ)