وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِن قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ ۚ وَمَا يَعْزُبُ عَن رَّبِّكَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
اور (اے پیغبر) تم کسی حال میں ہو اور قرآن کی کوئی سی آیت بھی پڑھ کر سناتے ہو اور (اے لوگو) تم کوئی سا کام بھی کرتے ہو مگر وہ بات کرتے ہوئے ہماری نگاہوں سے غائب نہیں ہوتے اور نہ تو زمین میں نہ آسمان میں کوئی چیز تمہارے پروردگار کے علم سے غائب ہے، ذرہ بھر کوئی چیز ہو یا اس سے چھوٹی یا بڑی سب کچھ ایک کتاب واضح مندرج ہے۔
[٧٦] آپ کی اور مشرکوں کی سرگرمیوں کا تقابل :۔ اس آیت میں بیک وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مخاطب بنایا گیا ہے اور مشرکین مکہ کو بھی۔ اور ان دونوں کی سرگرمیوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے یعنی ایک طرف تو آپ کی ذات مبارک ہے جنہوں نے لوگوں کی ہدایت کے لیے دن رات ایک کردیا تھا اور اسی مقصد کے لیے اپنی جان تک کھپارہے ہیں لوگوں کو جا جا کر قرآن سنارہے ہیں اور اس کے ذریعہ جہاد کر رہے ہیں اور جب لوگ ایمان نہیں لاتے تو آپ کو انتہائی صدمہ ہوتا ہے دوسری طرف آپ کے مخالفین ہیں جو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دکھ دینے اور تکلیفیں پہنچانے، مسلمانوں کا مذاق اڑانے اور اسلام کی ہر راہ کو روکنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں رہ سکتی گویا اس آیت میں کافروں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ جو کرتوتیں بھی تم کرتے ہو یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہو وہ سب کچھ اللہ کے علم میں پہلے سے ہی موجود ہے پھر وہ تمہاری ایک ایک حرکت کو دیکھ بھی رہا ہے اور وہ ریکارڈ بھی ہوتی جارہی ہے لہٰذا اپنی ان سرگرمیوں کے انجام کی ابھی سے فکر کرلو اور نبی کو یہی بات کہہ کر تسلی دی جارہی ہے اور صبر کی تلقین کی جا رہی ہے۔