سورة یونس - آیت 54

وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (آنے والا عذاب اس درجہ ہولناک ہے اور اس کا وقوع اس درجہ قطعی ہے کہ) اگر ہر ظالم انسان کے قبضہ میں وہ سب کچھ آجائے جو روئے زمین میں ہے تو وہ ضرور اسے اپنے فدیہ میں دے دے، اور دیکھو جب انہوں نے عذاب اپنے سامنے دیکھا تو (اپنی سرکشی و انکار یاد کر رکے) دل ہی دل میں پچھتانے لگے پھر ان کے درمیان (یعنی مومنوں اور سرکشوں کے درمیان) انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا گیا اور ایسا کبھی نہ ہوگا کہ ان پر کسی طرح کی زیادتی واقع ہو۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٩] فدیہ میں سارے جہان کی مال ودولت :۔ یعنی آخرت میں صرف وہ اعمال صالحہ کام آئیں گے جو کسی نے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہوئے اپنے لیے آگے بھیجے ہوں گے۔ اعمال کے سوا وہاں نہ مال و دولت کام آئے گا نہ قرابت اور نہ سفارش۔ آیت مذکورہ میں مال و دولت کا ذکر بفرض تسلیم ہے یعنی اگر کسی مجرم کے پاس آخرت کو دنیا بھر کے خزانے اور مال و دولت موجود ہوں تو وہ یہ سب کچھ دے دلا کر عذاب سے اپنی جان چھڑا لے مگر یہ بات وہاں ناممکن ہوگی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کم سے کم عذاب والے دوزخی سے فرمائیں گے اگر تیرے پاس دنیا ومافیہا کی دولت موجود ہو تو کیا اسے اپنے فدیہ میں دے دو گے؟‘‘ وہ کہے گا ’’ہاں۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’’میں نے تو تجھ سے دنیا میں اس سے آسان تر بات طلب کی تھی اور کہا تھا کہ اس بات (یعنی توحید) پر قائم رہے گا تو میں تجھے جہنم میں داخل نہ کروں گا مگر تو شرک پر اڑا رہا‘‘ (مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ۔ باب الکفار) [٧٠] ندامت کو اس لیے چھپائیں گے کہ انہوں نے غلط راستہ لاعلمی یا جہالت کی بنا پر نہیں بلکہ ضد، ہٹ دھرمی اور تعصب کی بناء پر اختیار کیا تھا لیکن اس ندامت کو چھپانے میں بھی کامیاب نہ ہوسکیں گے۔