سورة یونس - آیت 36

وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ان لوگوں میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو صرف وہم و گمان کی باتوں پر چلتے ہیں اور سچائی کی معرفت میں گمان کچھ کام نہیں دے سکتا، یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس سے بے خبر نہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥١] انسان کے وضع کردہ قوانین حیات کی بنیاد ظن پر ہوتی ہے :۔ یعنی جن لوگوں نے مشرکانہ عقائد اور مذاہب کی داغ بیل ڈالی یا جن لوگوں نے انسانوں کے لیے قوانین حیات وضع کیے ان میں سے کسی بھی چیز کی بنیاد علم پر نہیں بلکہ محض ظن و اوہام پر ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے نتائج غلط نکلتے رہتے ہیں اور انسان کو آئے دن ان میں ترامیم اور تبدیلیوں کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے اور جو لوگ ایسے مذہبی یا دنیوی رہنماؤں کی پیروی کرتے ہیں وہ بھی گمان و قیاس ہی سے کرتے ہیں، کہ جب بڑے بڑے لوگ یہ بات کہتے ہیں یا ہمارے آباؤ و اجداد ایسا کہتے یا کرتے چلے آئے ہیں اور لوگوں کی اکثریت ان کی پیروی کر رہی ہے تو یہ باتیں ضرور ٹھیک ہی ہوں گی ان کے پاس بھی کوئی علمی بنیاد موجود نہیں ہوتی پھر بھلا اٹکل کے تیر حق و صداقت کی بحث میں کیا کام دے سکتے ہیں؟ یاد رہے کہ یہاں حق سے مراد ایسے یقینی دلائل ہیں جو کتاب و سنت میں موجود ہوں۔