قُلْ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ قُلِ اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ
(اے پیغمبر) ان سے پوچھو : کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو خلقت کی پیدائش شروع کرے اور پھر اسے دہرائے؟ تم کہو یہ تو اللہ ہے جو ابتدا میں پیدا کرتا ہے پھر اسے دہرائے گا، پس غور کرو تمہاری الٹی چال تمہیں کدھر کو لے جارہی ہے؟
[٤٩] مشرکین مکہ یہ تو تسلیم کرتے تھے کہ اللہ ہی نے انہیں اور ساری کائنات کو پیدا کیا ہے اور اس کام میں ان کے شریکوں کا کوئی حصہ نہیں لیکن وہ معاد یا اخروی زندگی کے قائل نہیں تھے اس آیت میں دو باتوں پر ان مشرکوں کو مطلع کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ جو ہستی پہلی بار پیدا کرسکتی ہے وہ دوسری بار بھی پیدا کرسکتی ہے بلکہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے سہل تر ہے اور دوسری یہ کہ جب پہلی بار کی تخلیق میں تمہارے معبودوں کا کچھ حصہ نہیں تو دوسری تخلیق میں بھی وہ حصہ دار نہیں ہوسکتے۔ اب تخلیق اول کے متعلق سوال کا جواب قریش مکہ کی زبان سے بیان فرمایا گیا کیونکہ وہ اس بات کے قائل تھے اور تخلیق ثانی یا معاد کے وہ چونکہ قائل نہیں تھے لہٰذا اس کا جواب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے دلوایا گیا۔