سورة یونس - آیت 26

لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ۖ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌ ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اس کا قانون تو یہ ہے کہ) جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لیے بھلائی ہی ہوگی اور (جتنی اور جیسی کچھ ان کی بھلائی تھی) اس سے بھی کچھ زیادہ، ان کے چہروں پر نہ تو (محرومی کی) کالک لگے گی نہ ذلت کا اثر نمایاں ہوگا، ایسے ہی لوگ جنتی ہیں ہمیشہ جنت میں رہنے والے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٨] دیدار الہٰی کی لذت :۔ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب جنت والے جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ایک پکارنے والا ندا دے گا کہ تم سے اللہ نے ایک اور بھی وعدہ کر رکھا ہے جسے وہ پورا کرنے والا ہے۔ جنتی کہیں گے کیا ہمارے چہرے روشن نہیں ہوئے یا اس نے ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی اور جنت میں داخل نہیں کردیا ؟ (تو اب کون سی کمی رہ گئی ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تب اللہ تعالیٰ حجاب کو ہٹا دے گا اللہ کی قسم! جنتیوں کو جو کچھ بھی ملا ہوگا ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب انہیں اللہ کی طرف نظر (دیدار) کرنا ہوگا‘‘ (ترمذی، کتاب التفسیر) اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ نیکوکاروں کو صرف ان کے اعمال کا اچھا بدلہ ہی نہ ملے گا بلکہ اللہ کے فضل و کرم سے اس سے بہت زیادہ ملے گا اور یہ دس گنا بھی ہوسکتا ہے سات سو گنا بھی بلکہ اس سے زیادہ بھی جبکہ بدکاروں کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے جتنی برائی انہوں نے کی ہوگی۔ [٣٩] یعنی قیامت کے اس طویل دن میں جس کی مدت اس دنیا کے حساب سے پچاس ہزار برس کے برابر ہے کسی وقت بھی نیک اعمال کرنے والوں کے چہروں پر ایسی سیاہی اور ذلت نہیں چھائے گی جو کفار و فجار کے چہروں پر چھائی ہوگی بلکہ ان کے چہرے تر و تازہ، بارونق اور نورانی ہوں گے۔