قُل لَّوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُم بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
اور تم کہو اگر اللہ چاہتا تو میں قرآن تمہیں سناتا ہی نہیں اور تمہیں اس سے خبردار ہی نہ کرتا ( مگر اس کا چاہنا یہی ہوا کہ تم میں اس کا کلام نازل ہو اور تمہیں اقوام عالم کی ہدایت کا ذریعہ بنائے) پھر دیکھو یہ واقعہ ہے کہ میں اس معاملہ سے پہلے تم لوگوں کے اندر ایک پوری عمر بسر کرچکا ہوں، کیا تم سمجھتے بوجھتے نہیں؟
[٢٥] آپ کی سابقہ زندگی سے قرآن کے منزل من اللہ ہونے کا ثبوت :۔ یہ کفار کے مطالبات کا دوسرا جواب ہے یعنی اللہ کی یہی مشیت تھی کہ اس نے مجھے اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا تاکہ میں تمہیں اس کے پیغام سے آگاہ کر دوں اور اگر وہ نہ چاہتا تو نہ میں تمہیں قرآن سناتا اور نہ ہی تم اس کے مضامین پر آگاہ ہوتے اس میں میرے اپنے اختیار کی کوئی بات نہیں البتہ ایک بات کی طرف تمہاری توجہ ضرور دلاتا ہوں اور وہ ہے میری سابقہ زندگی جو میں نے تمہارے ہی درمیان گزاری ہے اور تم ان باتوں سے خوب واقف ہو کہ : ١۔ میں خود امی یا ان پڑھ ہوں تمام تر زندگی میں نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا کہ کسی دوسرے سے سیکھ کر ایسا کلام پیش کردیتا جس کی مثل پیش کرنے سے تمہارے سب شعراء اور ادباء عاجز آچکے ہیں۔ ٢۔ نبوت سے پیشتر میں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے یہ شبہ ہوسکے کہ ایسا کلام کہنا میری جبلّت میں موجود تھا جس میں ترقی کرتے کرتے میں ایسا کلام پیش کرنے کے قابل ہوگیا ہوں جیسا کہ شعراء اور ادباء کی زندگی میں ایسا ملکہ ابتداء سے ہی موجود ہوتا ہے۔ ٣۔ میں نے کبھی نہ کسی سے جھوٹ بولا نہ فریب کیا اور تم لوگ میری صداقت و راست بازی اور دیانت و امانت کے معترف بھی ہو اور کئی دفعہ اپنی زبانی ایسا اعتراف بھی کرچکے ہو۔ پھر ان حقائق کی موجودگی میں تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ میں قرآن بنا لایا ہوں یا بناسکتا ہوں نیز یہ کہ آج تک میں نے کسی آدمی کے ذمہ کوئی جھوٹی بات منسوب بھی نہیں کی تو پھر اللہ کی نسبت ایسا جھوٹ کیسے منسوب کرتا ہوں کہ یہ قرآن اللہ نے میری طرف وحی کیا ہے۔