وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور جب کبھی انسان کو کوئی رنج پہنچتا ہے تو خواہ کسی حال میں ہو، کروٹ پر لیٹا ہو، بیٹھا ہو، کھڑا ہو ہمیں پکارنے لگے گا، لیکن جب ہم اس کا رنج دور کردیتے ہیں تو پھر اس طرح (منہ موڑے ہوئے) چل دیتا ہے گویا رنج و مصیبت میں کبھی اس نے ہمیں کبھی پکارا ہی نہیں تھا، تو دیکھو ! جو حد سے گزر گئے ہیں ان کی نگاہوں میں اسی طرح ان کے کام خوش نما کردئے گئے ہیں۔
[١٨] شرکیہ کام خوشحالی میں ہی بھلے لگتے ہیں :۔ انسان کی ایک عادت تو یہ ہے کہ وہ دوسرے کے حق میں یا اپنے لیے کوئی بددعا کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی یہ بددعا جلد از جلد قبول ہو جس کا لازمی نتیجہ سب لوگوں کی تباہی پر منتج ہوتا ہے اور اس کی دوسری عادت یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ کو سچے دل سے پکارنے لگتا ہے اور اللہ سے کئی طرح کے وعدے کرتا ہے لیکن جب اللہ وہ مصیبت دور کردیتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے نہ اسے اللہ یاد رہتا ہے اور نہ اس سے کیے ہوئے وعدے یاد رہتے ہیں پھر اسے اپنے خود ساختہ حاجت روا اور مشکل کشا یاد آنے لگتے ہیں جیسا کہ قریش مکہ نے بھی یہی کچھ کیا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے قحط دور ہوگیاتو ان لوگوں کی وہی سرکشیاں، بداعمالیاں، اپنے معبودوں سے لگاؤ اور دین برحق کے خلاف پہلی سی سرگرمیاں پھر شروع ہوگئیں اور مصیبت کے وقت جو دل اللہ کی طرف رجوع کرنے لگے تھے پھر اپنی سابقہ روش اور غفلتوں میں ڈوب گئے اور انہی کاموں میں انہیں لطف آنے لگا اور اچھے معلوم ہونے لگے۔