سورة یونس - آیت 11

وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) انسان جس طرح فائدہ کے لیے جلد باز ہوتا ہے اگر اسی طرح اللہ اسے نقصان پہنچانے میں جلد باز ہوتا (یعنی اگر اس کا قانون جزا ایسا ہوتا کہ ہر بدعملی کا برا نتیجہ فورا کام کرجائے) تو اس کا وقت کبھی کا پورا ہوچکا ہوتا (لیکن قانون جزا نے یہاں ڈھیل دے رکھی ہے) پس جو لوگ (مرنے کے بعد) ہماری ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں ان کی سرکشیوں میں سرگرداں چھوڑ دیتے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٧] قریش مکہ پر قحط :۔ قریش مکہ کی مسلسل ایذا رسانیوں اور نافرمانیوں کے نتیجہ میں مکہ میں سخت قحط نمودار ہوا جس کی مصیبت سے اہل مکہ بلبلا اٹھے قریشی متکبرین کی اکڑی ہوئی گردنیں جھک گئیں۔ کھانے کو کچھ نہ ملتا تھا حتیٰ کہ یہ لوگ ہڈیاں اور چمڑہ تک کھانے پر مجبور ہوگئے اور آسمان کی طرف دیکھتے تو بھوک کی شدت اور جسمانی کمزوری کی وجہ سے انہیں دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا اور ان دنوں وہ اللہ سے آہ زاریاں بھی کرتے تھے اور بت پرستی میں بھی خاصی کمی آگئی تھی جب اس قحط نے طول کھینچا تو ابو سفیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا! آپ قحط کے عذاب سے نجات کے لیے دعا کریں، آپ تو صلہ رحمی کا سبق دیتے ہیں جبکہ ہم بھوکوں مر رہے ہیں۔ اگر یہ عذاب دور ہوگیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تو بارشیں ہونے لگیں اور قحط دور ہوگیا اور یہ دعائیں انسانوں کی بھلائی اور خوشحالی کے لیے تھیں۔ اچھی دعاجلدی قبول ہوجاتی ہے اور بری نہیں ہوتی :۔ دوسری طرف کافر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اے اللہ اگر یہ قرآن برحق ہے اور تیری ہی طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسادے (٨: ٣٢) یہ دعا انسانوں کی برائی اور تباہی کے لیے تھی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول نہ کیا حتیٰ کہ بعض دفعہ رسول اللہ کی بددعا کے جواب میں فرما دیا۔ ﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ ﴾ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنا دستور یہ بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جب کوئی اچھی چیز طلب کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے اس طرح اگر وہ تم لوگوں کی بددعائیں بھی قبول کرنے لگتا تو اس وقت تک تم میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہتا۔ اللہ کا دستور یہ ہے کہ برے کاموں کے بدلہ میں یا بددعاؤں کے نتیجہ میں فوراً عذاب نہیں نازل کیا کرتا بلکہ لوگوں کو سنبھلنے کا موقع دیتا رہتا ہے پھر اگر باربار کی تنبیہات کے باوجود بھی لوگ نافرمانیوں سے باز نہ آئیں تب ان پر عذاب آتا ہے۔