هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَٰلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
وہی ہے جس نے سورج کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو روشن اور پھر چاند کی منزلوں کا اندازہ ٹھہرا دیا تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو، اللہ نے یہ سب کچھ نہیں بنایا ہے مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں وہ (اپنی قدرت و حکمت کی) دلیلیں کھول کھول کر بیان کردیتا ہے۔
[٧] ضیاء اور نور کافرق :۔ ضیاء اور نور میں فرق یہ ہے کہ نور کا لفظ عام ہے اور ضیاء کا خاص۔ گویا ضیاء بھی نور ہی کی ایک قسم ہے نور میں روشنی اور چمک ہوتی ہے جبکہ ضیاء میں روشنی اور چمک کے علاوہ حرارت، تپش اور رنگ میں سرخی بھی ہوتی ہے۔ قرآن کریم نے عموماً ضیاء کا لفظ سورج کی روشنی کے لیے اور نور کا لفظ چاند کی روشنی کے لیے استعمال فرمایا ہے۔ [٨] چاند کی منزلیں :۔ بطلیموسی نظریہ ہیئت کے مطابق ہئیت دانوں نے آسمان پر چاند کی اٹھائیس منزلیں مقرر کر رکھی ہیں دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہی نظریہ ہیئت مقبول عام تھا اور درس گاہوں میں اسی نظریہ کی درس و تدریس ہوتی تھی۔ لہٰذا اس آیت میں اگر وہی ٢٨ منزلیں مراد لی جائیں تو بھی کوئی حرج نہیں تاہم اکثر علماء منازل قمر سے اشکال قمر مراد لیتے ہیں اور ان کی یہ دلیل ایک دوسری آیت ﴿وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ ﴾ (36: 39)سے ماخوذ ہے جس کے آخر میں ہلال (نئے یاپہلی رات کے چاند) کا ذکر کیا گیا ہے۔ [٩] قمری تقویم اور اس کی خصوصیات :۔ اس سے معلوم ہوا کہ قمری تقویم ہی حقیقی تقویم ہے شمسی نہیں۔ لہٰذا جہاں بھی ایک ماہ یا اس سے زائد مدت کا شمار ہوگا شرعی نقطہ نگاہ سے وہ قمری تقویم کے مطابق ہی ہوگا جیسے ایام عدت و رضاعت، معاہدات میں مدت کی تعیین وغیرہ نیز احکام اسلام مثلاً حج، روزہ، حرمت والے مہینے، عیدین سب کا تعلق قمری تقویم سے ہے قمری تقویم کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ یہ سادہ اور فطری تقویم ہے جو انسانی دستبرد (مثلاً کبیسہ اور اس کی اقسام مختلف) سے پاک ہے اس میں مہینہ کے دنوں کی تعداد کو بدلا نہیں جاسکتا اس میں سال ہمیشہ بارہ ہی ماہ کا ہوگا اور اس میں تمام دنیا کے لوگوں کے لیے مساوات اور ہمہ گیری کا اصول کار فرما ہے، اور اس پر دنیوی رسم و رواج اور اغراض اثر انداز نہیں ہوسکتیں۔ (مزید تفصیلات کے لیے میری تصنیف ''الشمس والقمر بحسبان'' ملاحظہ فرمائیے) [١٠] سورج اور چاند کی کی گردش کے فوائد :۔ یعنی سورج اور چاند کی مقررہ حساب کے مطابق گردش بلامعنی نہیں بلکہ اس کے کئی فوائد ہیں۔ پہلا فائدہ یہ ہے کہ نمازوں کے اوقات اور کاروبار کے اوقات سورج کی گردش سے متعین کرسکتے ہو، اور جب مدت کا شمار صرف ایک ماہ سے کم ہوگا تو یہ مدت سورج سے متعین ہوسکتی ہے اور چاند سے بھی، مگر جب یہ مدت ایک ماہ سے زائد ہوگی تو اس کا شمار چاند کے حساب سے ہوگا جس کی تقسیم انسانی دستبرد سے محفوظ ہے اس طرح تم مدت کا صدیوں تک کا حساب رکھ سکتے ہو دوسرا فائدہ یہ ہے کہ سورج، چاند اور دیگر ستاروں کی گردش کا نظام اس قدر مربوط، منظم اور فرمان الٰہی کا پابند ہے کہ اس میں ایک لمحہ کی تقدیم و تاخیر ناممکن ہے۔ اور اس طرح تم آئندہ بھی صدیوں تک کے لیے تقویم تیار کرسکتے ہو اور تیسرا سب سے اہم اور حقیقی فائدہ یہ ہے کہ تم ان چیزوں کو پیدا کرنے والی، انہیں اپنی گردش میں اس طرح جکڑ بند کرنے والی ہستی کے تصرف اور اختیار پر غور کرو اور دیکھو جو ہستی اتنے اتنے عظیم الشان کارنامے سرانجام دے سکتی ہے وہ تمہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکتی، یہ گویا معاد پر دوسری دلیل ہوئی۔