إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
(اے لوگو) تمہارا پروردگار تو وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام میں پیدا کیا (یعنی چھ معین زمانوں میں پیدا کیا) پھر اپنے تخت حکومت پر متکمن ہوگیا، وہی تمام کاموں کا بندوبست کرر ہا ہے ( یعنی کائنات ہستی پیدا بھی اسی نے کی اور فرماں روائی بھی صرف اسی کی ہوئی) اس کے حضور کوئی سفارشی نہیں ہوسکتا مگر یہ کہ خود وہ اجازت دے دے، اور اجازت کے بعد کوئی اس کی جرات کرے، یہ ہے اللہ تمہارا پروردگار پس اسی کی بندگی کرو، کیا تم غوروفکر سے کام نہیں لیتے؟
[٥] عبادت کا مستحق صرف وہ ہے جو پروردگار ہو :۔ اس آیت سے ربوبیت کے دلائل اور ان کے نتائج کا آغاز ہو رہا ہے۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ارض و سماوات کو چھ ایام (ادوار) میں پیدا کیا یعنی یہ کائنات از خود ہی وجود میں نہیں آگئی جیسا کہ دہریوں کا خیال ہے پھر عرش پر قرار پکڑا (تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٥٤) پھر وہ کائنات کو پیدا کرکے بیٹھ نہیں گیا جیسا کہ بعض گمراہ لوگوں کا خیال ہے۔ بلکہ اس کا پورا انتظام چلارہا ہے۔ شمس و قمر اور ستارے سب اسی کے حکم کے مطابق گردش کر رہے ہیں اس کا رعب و داب اور اس کا تصرف اتنا زیادہ ہے کہ کوئی اس کے سامنے کسی دوسرے کی سفارش بھی کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا الا یہ کہ وہ خود ہی کسی کو سفارش کی اجازت دے لہٰذا ان سب باتوں کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ اسی بااختیار اور مقتدر ہستی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، کیونکہ وہی تمہارا پروردگار ہے۔ رب اور عبادت دونوں الفاظ بڑے وسیع معنی رکھتے ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بتلائے جاچکے ہیں۔ یہاں اتنا اشارہ کافی ہے کہ اللہ کو فی الواقع رب تسلیم کرلینے کا نتیجہ ہی یہ نکلتا ہے کہ عبادت کی تمام اقسام صرف اسی کے لیے مختص کردی جائیں۔