رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اور خدایا (اپنے فضل و کرم سے) ایسا کیجیو کہ اس بستی کے بسنے والوں میں تیرا ایک رسول پیدا ہو جو انہی میں سے ہو وہ تیری آیتیں پڑھ کر لوگوں کو سنائے، کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور (اپنی پیغمبرانہ تربیت سے) ان کے دلوں کو مانجھ دے۔ اے پروردگار ! بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو حکمت والی اور سب پر غالب ہے
[١٦٠]میں ابراہیم علیہ السلام کی دعاہوں:۔ یعنی اہلیان شہر مکہ میں سے رسول مبعوث فرما۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا بھی قبول فرمائی اور اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے نبی عربی پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں۔‘‘ (احمد، بحوالہ مشکوٰۃ، باب فضائل سید المرسلین صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ الفصل الثانی) [ ١٦١] حکمت کیاہے؟اوروحی مخفی :۔حکمت کے لفظی معنی سمجھ اور دانائی ہے۔ پھر اس میں وہ سب طور طریقے بھی شامل ہوجاتے ہیں جو کسی کام کو عملی طور پر سر انجام دینے کے لیے ضروری ہوں۔ پہلی قسم کو حکمت علمی اور دوسری قسم کو حکمت عملی کہتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف ''الرسالہ'' میں بے شمار دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ قرآن میں جہاں بھی کتاب کے ساتھ حکمت کا لفظ آیا ہے تو اس سے مراد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میرے بعد کوئی شخص غرور سے ایسا نہ کہے کہ میں اللہ کی کتاب میں یہ حکم نہیں پاتا۔ خوب سن لو! مجھے یہ کتاب (قرآن) بھی دیا گیا ہے اور اس کی مثل اتنا کچھ اور بھی۔‘‘ (ترمذی) ابو داؤد وغیرہما) نیز قرآن کریم کی یہ آیت ﴿وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۤ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا﴾(۷:۵۹)سنت رسول کی اتباع کو واجب قرار دیتی ہے۔ جس کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص سنت رسول کا منکر ہے وہ حقیقتاً قرآن کا بھی منکر ہے۔ [ ١٦٢]تزکیہ نفس کا مفہوم :۔ تزکیہ نفس مشہور لفظ ہے یعنی انہیں پاکیزہ بنائے اور سنوارے اور سنوارنے میں، اخلاق، عادات، معاشرت، تمدن، سیاست غرض ہر چیز کو سنوارنا شامل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عملی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی تربیت کرنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی۔ اس کی ایک معمولی سی مثال ملاحظہ فرمائیے۔ ایک دفعہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ (جو سابقین و اولین میں سے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے پیار بھی بہت تھا) نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو صرف یہ کہا تھا ’’اے کالی ماں کے بیٹے۔‘‘ تو اتنی سی بات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ پر شدید گرفت کرتے ہوئے فرمایا : إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ (بخاری کتاب الایمان باب المعاصی من امر الجاھلیۃ) یعنی تو ایسا شخص ہے جس میں ابھی تک جاہلیت کا اثر موجود ہے) یہ تھا آپ کا انداز تربیت اور یہی (یزکیھم) کا مفہوم ہے۔ (تشریح کے لیے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ١٦٠ تا ١٦٤ ملاحظہ فرمائیے۔)