وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ نَّظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ هَلْ يَرَاكُم مِّنْ أَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُوا ۚ صَرَفَ اللَّهُ قُلُوبَهُم بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ
اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے ( جس میں منافقوں کا ذکر ہوتا ہے) تو وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ تم پر کسی کی نگاہ تو نہیں؟ (یعنی اپنا ذکر سن کر جو تم چونک اٹھے ہو تو اس پر کسی کی نگاہ تو نہیں پڑ رہی؟) پھر منہ پھیر کر چل دیتے ہیں، تو حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے ان کے دل ہی (راست بازی سے) پھیر دیئے، کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ سے کورے ہوگئے۔
[١٤٦] وحی نازل ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کو مسجد میں بلاکر وحی سنانا :۔ جب کوئی سورت نازل ہوتی تو بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو مسجد نبوی میں بلا کر بطور خطبہ انہیں یہ سورت سنا دیا کرتے۔ اب منافقوں کی مجبوری یہ تھی کہ انہیں ایسے اعلان پر مسجد میں جانا پڑتا تھا اور اپنے آپ سے نفاق کا شبہ دور کرنے کے لیے انہیں ایسی حاضری لگوانا ہی پڑتی تھی مگر اس بیگار کو زیادہ دیر تک برداشت بھی نہ کرسکتے تھے اور چاہتے یہ تھے کہ حاضری لگوانے کے بعد فوراً مسلمانوں سے نظریں بچا کر نکل جائیں اور ان میں سے اکثر یہی کچھ کرتے تھے۔ تو جب ان لوگوں نے رشد و ہدایت کی مجلس سے یوں بھاگنا شروع کیا تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ویسا ہی بنا دیا۔ [١٤٧] یعنی ہر سال ایک یا دو دفعہ رسوا ہونے کے باوجود انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہمیں اس رسوائی سے نجات کیسے مل سکتی ہے اور اس کے بجائے عزت کیسے نصیب ہو سکتی ہے نیز ہماری دین و دنیا کی بھلائی کس بات میں ہے۔