رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
اے پروردگار (اپنے فضل و کرم سے) ہمیں ایسی توفیق دے کہ ہم سچے مسلم (یعنی تیرے حکموں کے فرمانبردار ہوجائیں اور ہماری نسل میں سے بھی ایک ایسی امت پیدا کردے جو تیرے حکموں کی فرمانبردار ہو ! خدایا ! ہمیں ہماری عبادت کے (سچے) طور طریقے بتلا دے اور ہمارے قصوروں سے درگزر کر۔ بلاشبہ تیری ہی ذات ہے جو رحمت سے درگزر کرنے والی ہے اور جس کی رحیمات نہ درگزر کی کوئی انتہا نہیں !
[١٥٧] یہ دونوں پیغمبر جب خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو ساتھ ساتھ دعا بھی کر رہے تھے کہ الٰہی : ہماری یہ خدمت قبول فرما اور اپنا مسلم (مطیع فرماں) بنا، اور ہماری اولاد میں سے ایک مسلم قوم پیدا کر، اور مسلم وہ ہوتا ہے جو اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور اپنے آپ کو کلیتاً اللہ کے سپرد کر دے اور اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق دنیا میں زندگی بسر کرے۔ اس عقیدے اور طرز عمل کا نام اسلام ہے اور یہی تمام انبیاء کا دین رہا ہے۔ [ ١٥٨] مناسک کا لفظ عموماً حج کے آداب و ارکان اور قربانی کے احکام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کے وسیع مفہوم میں عبادت کے سب طریقے شامل ہیں۔ [ ١٥٩]انبیاء اورا ستغفار :۔ انبیاء سے عمداً کوئی گناہ سرزد نہیں ہوتا، رہی خطا تو بھول چوک امت سے تو معاف ہے۔ مگر انبیاء کی شان اتنی بڑی ہے کہ ذرا سی غفلت ان کے حق میں گناہ سمجھی جاتی ہے۔ اسی لیے انبیاء علیہم السلام معصوم ہونے کے باوجود عوام الناس کی نسبت بہت زیادہ توبہ و استغفار کرتے رہتے ہیں۔