وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ
اور ابراہیم نے جو اپنے باپ کے لیے بخشائش کی آرزو کی تھی تو صرف اس وجہ سے کہ اپنا وعدہ پورا کردے جو وہ اس سے کرچکا تھا (یعنی اس نے کہا تھا میرے بس میں اور تو کچھ نہیں، دعا ہے تو اس سے بارز نہیں رہوں گا) لیکن جب اس پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ (کی سچائی) کا دشمن ہے (اور کبھی حق کی راہ اختیار کرنے والا نہیں) تو اس سے بیزار ہوگیا۔ بلاشبہ ابراہیم بڑا ہی دردمند بڑا ہی بردبار (انسان) تھا۔
[١٣٠] سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے باپ آزر کا انجام :۔ یعنی جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے باپ آزر نے ان سے کہا تھا کہ یہاں سے نکل جاؤ اور میری آنکھوں سے دور ہوجاؤ ورنہ میں تمہیں سنگسار کر دوں گا (١٩ : ٤٧) تو اس وقت آپ نے باپ سے کہا تھا : تم سلامت رہو میں جا رہا ہوں البتہ تمہارے لیے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا اور یہ بات میرے اختیار میں نہیں کہ میں تمہیں اللہ کی گرفت سے بچا سکوں (٦٠ : ٤) چنانچہ اسی وعدہ کے مطابق آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائی کہ اے اللہ! میرے باپ کو معاف فرما دے کیونکہ وہ گمراہوں سے ہے اور اس دن مجھے رسوا نہ کرنا جب سب لوگ اٹھائے جائیں گے (٢٦ : ٨٦، ٨٧) پھر جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہوگیا کہ وہ راہ راست کی طرف آنے والا نہیں۔ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے اپنی بے زاری کا اظہار کردیا۔ اور جو دعا آپ نے اپنے حق میں کی تھی کہ’’مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنا‘‘ اس کی تفصیل درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ابراہیم قیامت کے دن اپنے والد آزر کو دیکھیں گے کہ ان کے منہ پر سیاہی اور گرد و غبار ہوگا۔ آپ اس سے کہیں گے میں نے تمہیں کہا نہ تھا کہ میری نافرمانی نہ کرنا۔‘‘ آپ کا باپ کہے گا : آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کروں گا۔ اس وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے ’’پروردگار! تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں قیامت کے دن تجھے رسوا نہ کروں گا۔ اور اس سے بڑھ کر کیا رسوائی ہو سکتی ہے کہ میرا باپ اس حال میں ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ’’میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔‘‘ پھر کہا جائے گا ’’ابراہیم ذرا اپنے پاؤں تلے تو دیکھو۔‘‘ اسی وقت انہیں باپ کی جگہ ایک نجاست سے لتھڑا ہوا بجو نظر آئے گا۔ فرشتے اس کے پاؤں پکڑ کر دوزخ میں ڈال دیں گے۔ (بخاری کتاب الانبیاء۔ باب (وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلًا ١٢٥۔) 4۔ النسآء :125) گویا اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے لیے رسوائی کو اس طرح دور کیا کہ ان کے باپ کی شکل ہی بدل دی اور رسوائی کا دار و مدار تو شناخت پر ہے۔ جب یہ شناخت ہی نہ رہے کہ کیا چیزدوزخ میں پھینکی گئی تو پھر کسی کی رسوائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ [١٣١] اوّاہ کے معنی آہیں بھرنے والا، آہ وزاری کرنے والا، بہت دعائیں کرنے والا۔ رقیق القلب اور نرم دل سب کچھ آتے ہیں۔ ان کی نرم دلی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ باپ تو کہہ رہا ہے کہ یہاں سے نکل جاؤ ورنہ تمہیں رجم کر دوں گا اور آپ اس کو جواب دیتے ہیں کہ میں تو جا رہا ہوں تم سلامت رہو اور میں تمہارے لیے اپنے رب سے معافی بھی مانگوں گا۔