لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا ۚ لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ ۚ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ
(اے پیغمبر) تم کبھی اس مسجد میں کھڑے نہ ہونا، اس بات کی کہ تم اس میں کھڑے ہو (اور بندگان الہی تمہارے پیچھے نماز پڑھیں) وہی مسجد حقدار ہے جس کی بنیاد اول دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے (یعنی مسجد قبا اور مسجد نبوی) اس میں ایسے لوگ (آتے) ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ پاک و صاف رہیں اور اللہ (بھی) پاک و صاف رہنے والوں ہی کو پسند کرتا ہے۔
[١٢١] تقویٰ پر تعمیر شدہ مسجد کونسی ہے؟ وہ مسجد کونسی تھی اور کیسے حالات میں تعمیر ہوئی؟ اس کی وضاحت کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔ ١۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمیوں نے اس بات میں جھگڑا کیا کہ وہ کونسی مسجد ہے جس کی پہلے دن سے تقویٰ پر بنیاد رکھی گئی تھی۔ ایک نے کہا وہ مسجد قبا ہے اور دوسرے نے کہا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’وہ یہی میری مسجد ہے۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٢۔ مسجد نبوی کی تعمیر اور بعد میں وسعت :۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کے بلند حصہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں اترے آپ چوبیس (اور ایک روایت کے مطابق چودہ) راتیں وہاں رہے۔ پھر بنی نجار کو بلا بھیجا جو تلواریں لٹکائے حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار ہوئے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی خواصی میں اور بنی نجار کے سردار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد تھے۔ یہاں سے چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو ایوب کے گھر میں اترے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند تھی کہ جہاں نماز کا وقت آئے وہیں نماز پڑھ لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑے میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعمیر مسجد کا حکم دیا۔ اور بنی نجار کے سرداروں کو بلا بھیجا اور فرمایا ’’تم اپنے اس باغ کی قیمت مجھ سے طے کرلو۔‘‘ وہ کہنے لگے۔ ’’نہیں اللہ کی قسم ہم تو اس کی قیمت اللہ تعالیٰ سے ہی لیں گے۔‘‘ اس باغ میں کچھ تو مشرکوں کی قبریں تھیں، کچھ کھنڈر اور کچھ کھجور کے درخت۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو مشرکوں کی قبریں کھود ڈالی گئیں، کھنڈر برابر کیے گئے اور کھجور کے درخت کاٹ کر ان کی لکڑیاں قبلے کی طرف جما دی گئیں۔ اس کے دونوں طرف پتھروں کا پشتہ لگایا۔ صحابہ شعر پڑھ پڑھ کر پتھر ڈھو رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ شعر پڑھتے اور فرماتے :؎ اَللّٰھُمَّ لَاخَیْرَ اِلَّا خَیْرَالْاٰ خِرَۃَ....... فَاغْفِرِ الْاَنْصَارَ وَالْمُھَاجِرَۃَ (اے اللہ! بھلائی تو وہی ہے جو آخرت کی ہو اے اللہ انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔) (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ھل ینبش قبور مشرکی الجاھلیہ) ٣۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت) ہم ایک ایک اینٹ اٹھا رہے تھے اور عمار رضی اللہ عنہ دو دو اینٹیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمار رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا’’افسوس عمار رضی اللہ عنہ کو باغی جماعت مار ڈالے گی۔ یہ تو انہیں بہشت کی طرف بلائے گا اور وہ اسے دوزخ کی طرف بلائیں گے۔‘‘ چنانچہ عمار رضی اللہ عنہ کہا کرتے : میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب التعاون فی بناء المسجد ) ٤۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد نبوی کچی اینٹ سے بنی ہوئی تھی، چھت پر کھجور کی ڈالیاں اور ستون کھجور کی لکڑی کے تھے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے (اپنے دور خلافت میں) کچھ نہیں بڑھایا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد کو بڑھایا لیکن عمارت ویسی ہی رکھی جیسی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی یعنی اینٹوں اور کھجور کی ڈالیوں کی۔ البتہ کھجور کی لکڑی کے ستون دوبارہ لگائے گئے پھر سیدنا عثمان رضی اللہ نے اسے بدل ڈالا اور بہت بڑھایا اور اس کی دیواریں نقشی پتھر اور گچ سے بنوائیں اور اس کے ستون بھی نقشی پتھر کے تھے اور اس کی چھت ساگوان سے بنوائی۔ (بخاری۔ کتاب الصلوۃ۔ باب بنیان المسجد)