وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَن يَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ مَغْرَمًا وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اور اعرابیوں ہی میں ایسے لوگ ہیں کہ جو کچھ (راہ حق میں) خرچ کرتے ہیں اسے (اپنے اوپر) جرمانہ سمجھتے ہیں اور منتظر ہیں کہ تم پر کوئی گردش آجائے (تو الٹ پڑیں) حقیقت یہ ہے کہ بری گردش کے دن خود انہی پر آنے والے ہیں اور اللہ (سب کچھ) سننے والا (سب کچھ) جاننے والا ہے۔
[١٠٩] بدوی منافق اور زکوٰۃ:۔ یعنی وہ اسلام میں داخل تو اس لیے ہوئے تھے کہ کچھ دنیوی مفادات حاصل ہوں گے مگر یہاں ان مفادات کے ساتھ کچھ لینے کے دینے بھی پڑگئے۔ تو سمجھنے لگے کہ ہم تو پہلے ہی اچھے تھے لہٰذا وہ پھر کسی گردش زمانہ کے منتظر بیٹھے ہیں کہ کب اسلام کا خاتمہ ہو اور اس کی پابندیوں سے ان کی جان چھوٹے بالخصوص زکوٰۃ سے جسے وہ تاوان سمجھ کر انتہائی ناخوشی اور کراہت کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ پھر جب ڈیڑھ دو سال بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو ان لوگوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اپنی پہلی ہی فرصت میں ان میں سے بعض تو اسلام ہی سے پھر گئے اور کفر کا راستہ اختیار کرلیا اور بعض نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تھا۔ جن سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جہاد کیا تھا۔ [١١٠] بدوی منافقوں کی رسوائی :۔ ایک سزا تو انہیں یہ مل رہی ہے کہ منافق ہونے کے باوجود انہیں اسلام کی پابندیاں ادا کرنا پڑ رہی ہیں۔ اور جب ان لوگوں نے زکوٰۃ سے انکار یا ارتداد کی راہ اختیار کی تو ان کے خلاف جہاد کیا گیا۔ جس میں ان لوگوں کو ہزیمت ہوئی۔ اسلام کو اللہ نے سربلند کرنا ہی تھا۔ البتہ یہ لوگ مارے بھی گئے جو بچے وہ ذلیل و رسوا بھی ہوئے اور زکوٰۃ بھی پوری کی پوری ادا کرنا پڑی۔