وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اور (پھر) جب ایسا ہوا تھا کہ ابراہیم نے خدا کے حضور دعا مانگی تھی (اے پروردگار ! اس جگہ کو (جو دنیا کی آباد سرزمین سے دور اور سرسبزی و شادابی سے یک قلم محروم ہے) امن و امان کا ایک آباد شہر بنا دے اور پنے فضل وکرم سے ایسا کر کہ یہاں کے بسنے والوں میں جو لوگ تجھ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں ان کے رزق کے لیے ہر طرح کی پیداوار مہیا ہوجائے" اس پر ارشاد الٰہی ہوا تھا کہ (تمہاری دعا قبول کی گئی، یہاں کے باشندوں میں سے) جو کوئی کفر کا شیوہ اختیار کرے گا سو اسے بھی ہم (سروسامان رزق سے) فائدہ اٹھانے دیں گے۔ البتہ یہ فائدہ اٹھانا بہت تھوڑا ہوگا۔ کیونکہ بالآخر اسے (پاداش عمل میں) چاروناچار دوزخ میں جانا ہے اور کیا ہی برا اس کا ٹھکانا ہوا
[١٥٤] یعنی اس بے آب و گیاہ اور ویران سے مقام کو ایک پرامن شہر بنا دے اور جو لوگ یہاں آباد ہوں انہیں پھلوں کا رزق مہیا فرما۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا قبول ہوئی اور یہ مقام آج تک پرامن اور قابل احترام ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت کی از سر نو توثیق کردی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : ابو شریح نے عمر و بن سعید کو (جو یزید کی طرف سے مدینہ کا حاکم تھا) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن خطبہ ارشاد فرمایا۔ پہلے حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا : اللہ نے مکہ کو حرام کیا ہے۔ لوگوں نے نہیں کیا، تو جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے نہ وہاں خون بہانا درست ہے اور نہ کوئی درخت کاٹنا۔ (بخاری، کتاب العلم، باب لیبلغ العلم الشاھد الغائب۔۔ الخ [ ١٥٥] حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب امامت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے پوچھا تو جواب ملا کہ وہ صرف صالح لوگوں کو ملے گی ظالموں کو نہیں ملے گی۔ تو اب ابراہیم علیہ السلام نے پھلوں کا رزق عطا کرنے کی دعا میں ایمانداری کی شرط از خود بڑھا دی۔ تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ رزق کے معاملہ میں ایمانداری کوئی شرط نہیں وہ تو میں نیک اور بد سب کو دوں گا۔ وہ محبت اور ایمانداری کی شرط صرف امامت کے لیے ہے رزق کے لیے نہیں۔