سورة التوبہ - آیت 95

سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ إِنَّهُمْ رِجْسٌ ۖ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جب تم لوٹ کر ان سے ملو گے تو ضرور یہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ ان سے درگزر کرو، سو چاہیے کہ تم ان سے درگزر ہی کرلو (یعنی رخ پھیر لو) یہ ناپاک ہیں، ان کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اس کمائی کا نتیجہ جو یہ (اپنی بدعملیوں سے) کماتے رہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠٧] قسمیں کھانے کا مقصد یہ ہے کہ انہیں مسلمان ہی سمجھا جائے :۔ یعنی جب وہ آ کر اپنے عذر پیش کر کے اپنے بیان پر قسمیں کھانے لگے تو ان سے مختلف سوالات کر کے ان کے بیانات کی تحقیق نہ شروع کردینا۔ وہ اپنے عذر اس لیے پیش نہیں کر رہے کہ آپ ان سے سوالات شروع کردیں بلکہ اس لیے کہ آپ ان سے درگزر کریں اور کچھ تعرض نہ کریں۔ سو آپ ان سے پوری طرح اعراض کیجئے۔ کیونکہ یہ نجس اور بد باطن لوگ ہیں۔ مسلمانوں کو ان سے میل ملاپ بھی نہ رکھنا چاہیے تاکہ انہیں اپنے کرتوتوں کا کچھ احساس ہوجائے۔ ان کے قسمیں کھانے کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ آپ ان سے راضی رہیں۔ اور ان سے مسلمانوں کے تعلقات ویسے ہی برقرار رہیں جیسے پہلے تھے لیکن نفاق پوری طرح کھل جانے کے بعد کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ ان سے دوستی یا محبت کے تعلقات برقرار رکھے۔ کیونکہ اللہ ایسے منافقوں سے کبھی راضی نہ ہوگا۔