سورة التوبہ - آیت 91

لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ناتوانوں پر بیماروں پر اور ایسے لوگوں پر جنہیں خرچ کے لیے کچھ میسر نہیں کچھ گناہ نہیں ہے (اگر وہ دفاع میں شریک نہ ہوں) بشرطیکہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی میں کوشاں رہیں (کیونکہ ایسے لوگ نیک عملی کے دائرے سے الگ نہیں ہوئے اور) نیک عملوں پر الزام کی کوئی وجہ نہیں، اللہ بڑا ہی بخشنے والا رحمت والا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠٤] تین طرح کے معذور اور عذر قبول ہونے کی شرط خیرخواہی اور اموال غنیمت میں ان کا حصہ :۔ اس آیت میں تین طرح کے لوگوں کو جہاد سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ ایک وہ جو بڑھاپے یا کسی اور وجہ سے اتنے کمزور ہوچکے ہوں کہ جہاد پر جانے کے قابل ہی نہ رہے ہوں۔ دوسرے مریض جو اس وقت جہاد پر جا ہی نہ سکتے ہوں اور اس شق میں ایسے تیماردار بھی شامل ہیں جن کا بیمار کے پاس رہنا لازمی ہو اور اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو جیسے غزوہ بدر میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ صرف اس وجہ سے شامل نہ ہو سکے تھے کہ ان کی زوجہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت بیمار تھیں اور جب مجاہدین واپس آئے تو ان کی وفات ہوچکی تھی۔ اور تیسرے وہ لوگ جن کے پاس جہاد کے لیے خرچ نہ ہو۔ کیونکہ اس دور میں ہر مجاہد کو اپنی سواری، اسلحہ اور زاد راہ کا خود انتظام کرنا ہوتا تھا اور اس کے عوض انہیں مال غنیمت سے مقررہ حصہ ملتا تھا۔ پھر ان تینوں قسم کے معذورین کے ساتھ یہ لازمی شرط بھی عائد کردی کہ ’’وہ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ ہوں۔‘‘ بالفاظ دیگر جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خیر خواہ نہ ہوں ان کا کوئی عذر قابل قبول نہ ہوگا کیونکہ ایسے لوگ صرف منافق ہی ہو سکتے ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک شخص بیمار ہے اور اس بیماری کی حالت میں جہاد کا اعلان ہوجاتا ہے۔ اب اگر وہ شخص منافق ہے تو اس کے احساسات یہ ہوں گے کہ کیا اچھا ہوا کہ میں اس وقت بیمار ہوں اور جہاد سے بچنے کا یہ کیسا معقول بہانہ میسر آ گیا ہے۔ اس کے برعکس ایک مومن کے احساسات یہ ہوں گے کہ کاش میں اس وقت بیمار نہ ہوتا اور اس اجر سے محروم نہ رہتا جو جہاد کرنے والوں کو ملے گا، یا وہ یہ آرزو کرے گا کہ اللہ اسے جلد از جلد صحت عطا کرے تاکہ وہ بھی جہاد میں شامل ہو سکے یا وہ اپنے تیمارداروں سے کہے گا کہ میرا اللہ مالک ہے تم وقت ضائع نہ کرو اور جہاد پر چلے جاؤ۔ غرض ایک ایک بات سے انسان کی نیت اور احساسات کا پتہ چل سکتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ مریض ہونے کے لحاظ سے تو یہ دونوں یکساں ہیں مگر ان کے احساسات بالکل متضاد ہیں کہ یہ احساسات ہی انہیں منافق اور مومن کی قسموں میں تقسیم کردیتے ہیں اور جن لوگوں کے احساسات میں اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی ہے انہی کا عذر شرعی لحاظ سے قابل قبول ہے اور ایسے لوگوں کو جہاد میں شامل ہی سمجھا جائے گا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جب تم کوئی سفر کرتے ہو یا کوئی وادی عبور کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : اس کے باوجود کہ وہ مدینہ میں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس کے باوجود کہ وہ مدینہ میں ہیں انہیں عذر نے روکا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب نزول النبی الحجر۔ مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب ثواب من حبسہ عن الغزو مرض او عذر ) بلکہ ایسے معذور لوگوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اموال غنیمت سے حصہ بھی نکالا ہے۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جنگ خیبر کی فتح کے فوراً بعد جو مہاجر حبشہ سے ہجرت کر کے پہنچے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اموال غنائم میں شریک کرلیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ خیبر)