وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ
اور (اے پیغبر) ان میں سے کوئی مرجائے تو تم کبھی اس کے جنازہ پر (اب) نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے رہنا، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حالت میں مرے کہ (دائرہ) ہدایت سے باہر تھے۔
[٩٩] منافقوں کے لئے مغفرت بے فائدہ ہے :۔ اس آیت کا تعلق اسی سورۃ کی آیت نمبر ٨٠ سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھایا تو وہ اس لحاظ سے تھا کہ منافقین اگرچہ دل سے کافر تھے مگر ظاہری طور پر ان پر شرعی احکام ویسے ہی نافذ ہوتے تھے جیسے سچے مومنوں پر لاگو ہوتے تھے اور حدیث مندرجہ بالا سے واضح ہے کہ بالخصوص جنازہ پڑھانے اور دعائے مغفرت کرنے کے بارے میں سیدنا عمر کی رائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے سے مختلف تھی حتیٰ کہ سیدنا عمر نے آپ سے تکرار بھی کی اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر کی رائے کے مطابق وحی نازل فرمائی۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب منافقوں سے نرم قسم کی پالیسی اختیار کرنے کا دور گزر چکا تھا۔ اور ان سے سخت رویہ اختیار کرنا عین منشائے الٰہی کے مطابق تھا۔ ضمناً ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ آپ کے کسی گنہگار کے حق میں استغفار کرنے سے اس کی معافی ہو سکتی ہے۔ لیکن بد اعتقاد لوگوں کی معافی کی کوئی صورت نہیں خواہ آپ کتنی ہی زیادہ دفعہ اس کے لیے استغفار کریں۔ منافقوں کی نماز جنازہ :۔ چنانچہ اس حکم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کی نماز جنازہ پڑھانا یا ان کے حق میں استغفار کرنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد کسی پر نفاق کا فتویٰ لگانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ دلوں کے احوال تو اللہ ہی جانتا ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور میں یہ دیکھتے تھے کہ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ جنازہ میں شریک ہیں یا نہیں۔ اگر وہ شریک ہوتے تو آپ بھی شریک ہوجاتے تھے اور اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ صاحب جنازہ مومن آدمی تھا۔ منافق نہیں تھا۔ کیونکہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کی پہچان کرا دی تھی اور وہ ’’رازدان رسول‘‘ تھے۔