الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ۙ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
جن لوگوں کا حال یہ ہے کہ خوش دلی سے خیرات کرنے والے منومنوں پر (ریا کاری کا) عیب لگاتے ہیں اور جن مومنوں کو اپنی محنت مشقت کی کمائی کے سوا اور کچھ میسر نہیں (اور اسمیں سے بھی جتنا نکال سکتے ہیں راہ حق میں خرچ کردیتے ہیں) ان پر تمسخر کرنے لگتے ہیں تو (انہیں معلوم ہوجائے کہ) دراصل اللہ کی طرف سے خود ان پر تمسخر ہورہا ہے (کہ ذلت و نامرادی کی زندگی بسر کر رہے ہیں) اور (آخرت میں) ان کے لیے عذاب دردناک ہے۔
[٩٤] غزوہ تبوک کے لئے چندہ دینے والے :۔ غزوہ تبوک کے موقعہ پر قحط سالی بھی تھی۔ ابھی فصلیں بھی نہیں پکی تھیں۔ سفر بھی دور دراز کا تھا۔ مقابلہ بھی رومیوں سے تھا اور اسلحہ اور سواری کی بھی خاصی قلت تھی۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد فنڈ کے لیے پرزور اپیل کی جس کے نتیجہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اتنا چندہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا آدھا اثاثہ بانٹ کر جہاد فنڈ کے لیے لے آئے اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سارا ہی اثاث البیت لے کر حاضر ہوگئے اور ہر مسلمان نے اس فنڈ میں حسب توفیق حصہ لیا۔ نادار لوگوں نے اپنی حیثیت کے مطابق اور اغنیاء نے اپنی حیثیت اور رغبت کے مطابق۔ ایک صحابی ابو عقیل نے رات بھر مزدوری کی جس کی اجرت ایک صاع کھجور تھی۔ ان میں سے آدھا صاع گھر لے گیا اور آدھا صاع لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کردیا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ توبہ زیر آیت ہذا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آدھے صاع سے اتنی خوشی ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھجوریں ڈھیر کے اوپر پھیلا دیں۔ یہ دراصل آدھا صاع کھجور کی قدر و قیمت نہ تھی بلکہ اس نیت، شوق اور رغبت کی تھی جس کی بنا پر اس نے اہل و عیال کا پیٹ کاٹ کر آدھا صاع حاضر کردیا تھا۔ چندہ دینے والوں کو منافقوں کی طعنہ زنی :۔ اس موقعہ پر منافقوں کو پھبتیاں کسنے کا خوب موقع ملا۔ اگر کسی نے جی کھول کر چندہ دیا ہوتا تو کہتے کہ یہ سب کچھ دکھلاوا اور ریاکاری ہے۔ اور اگر کوئی تھوڑا دیتا تو کہتے کہ اتنے مال سے کونسی جنگی ضرورت پوری ہو سکتی ہے یہ لوگ تو لہو لگا کے شہیدوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں۔ اور اللہ کو اس کی کیا پروا تھی۔ غرض ان کی طعن و ملامت سے کوئی بھی نہ بچتا تھا۔ یہی پس منظر اس آیت کا شان نزول ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ جب ہمیں صدقہ کا حکم دیا گیا ہم اس وقت مزدوری پر بوجھ اٹھایا کرتے تھے۔ ابو عقیل (اسی مزدوری سے) آدھا صاع کھجور لے کر آئے تو منافق کہنے لگے : ابو عقیل کی خیرات کی بھلا اللہ کو کیا پروا تھی۔ ایک اور آدمی (عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ) بہت سا مال لائے تو منافق کہنے لگے کہ اس نے ریا (ناموری) کے لیے اتنا مال خیرات کیا ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔) (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ باب الحمل باجرۃ یتصدق بھا )