وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
اور (پھر غور کرو وہ واقعہ) جب ابراہیم کو اس کے پروردگار نے چند باتوں میں آزمایا تھا اور وہ ان میں پورا اترا تھا۔ جب ایسا ہو تو خدا نے فرمایا اے ابراہیم ! میں تجھے انسانوں کے لیے امام بنانے والا ہوں (یعنی دنیا کی آنے والی قومیں تیری دعوت قبول کریں گی اور تیرے نقش قدم پر چلیں گی) ابراہیم نے عرض کیا جو لوگ میری نسل میں سے ہوں گے ان کی نسبت کیا حکم ہے؟ ارشاد ہو جو ظلم و معصیت کی راہ اختیا کریں تو ان کا میرے اس عہد میں کوئی حصہ نہیں
[١٤٩]سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا امتحان کن کن باتوں میں ہوا:۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تمام دنیا کی امامت ایسے ہی نہیں مل گئی تھی بلکہ آپ کی سن شعور سے لے کر مرنے تک پوری زندگی قربانی ہی قربانی تھی۔ دنیا میں انسان جن چیزوں سے محبت کرتا ہے ان میں کوئی چیز بھی ایسی نہ تھی جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو اور ان کی خاطر مصائب نہ جھیلے ہوں جن میں سے چند ایک یہ ہیں : ١۔ آپ ایک بت گر اور بت فروش کے گھر پیدا ہوئے۔ باپ چاہتا تھا کہ بیٹا اس کام میں ان کا ہاتھ بٹائے۔ لیکن آپ علیہ السلام نے الٹا احسن انداز میں سمجھانا شروع کردیا۔ جب باپ آپ علیہ السلام کی طرف سے مایوس ہوگیا تو گھر سے نکال دینے کی دھمکی دے دی۔ آپ علیہ السلام نے حق کی خاطر جلاوطنی کی صعوبتیں قبول کیں۔ ٢۔ قومی میلہ کے موقع پر بتوں کو پاش پاش کیا جس کے نتیجہ میں آپ علیہ السلام کو آگ میں جلا دینے کا فیصلہ ہوا۔ آپ علیہ السلام نے بخوشی اس میں کودنا منظور کیا۔ ٣۔ آپ علیہ السلام نے اپنی بیوی ہاجرہ علیہا السلام اور دودھ پیتے بچے کو اللہ کے حکم کے مطابق ایک بے آب و گیاہ میدان میں جا چھوڑا۔ جہاں کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہ تھا اور نہ ہی دور دور تک کسی آبادی کے آثار نظر آتے تھے۔ ٤۔ بوڑھی عمر میں ملے ہوئے بچے اسماعیل علیہ السلام جب ذرا جوان ہوئے تو ان کو قربان کردینے کا حکم ہوا تو آپ بےدریغ اور بلاتامل اس پر آمادہ ہوگئے۔ غرض آپ کی قربانیوں اور آزمائشوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے خود یہ سرٹیفکیٹ عطا کردیا کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی کئی باتوں سے آزمائش کی تو وہ ہر امتحان میں پورے اترے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان امتحانوں کے نتیجہ میں آپ کو دنیا جہان کا امام بنا دیا، اور آئندہ قیامت تک کے لیے سلسلہ نبوت کو آپ علیہ السلام ہی کی اولاد سے منسلک کردیا اور دنیا کے اکثر و بیشتر مذاہب اپنے مذہب کی آپ علیہ السلام کی طرف نسبت کرنا باعث عزت و افتخار سمجھتے ہیں۔ [ ١٥٠]تمام لوگوں کے امام :۔ یعنی امامت کا وعدہ صرف تمہاری اس اولاد سے تعلق رکھتا ہے جو صالح ہوگی۔ ظالموں اور گنہگاروں کے لیے ایسا کوئی وعدہ نہیں۔ یہیں سے یہود کے اس غلط عقیدہ کی تردید ہوگئی جو وہ سمجھتے تھے کہ ہم چونکہ پیغمبروں کی اولاد ہیں اس لیے ہمیں عذاب اخروی نہ ہوگا۔