فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ
پس اس بات کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے دلوں میں نفاق (کا روگ) دائمی ہوگیا اس وقت تک کے لیے کہ یہ اللہ سے ملیں (یعنی قیامت تک دور ہونے والا نہیں ٌ) اور یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا اسے (جان بوجھ کر) پورا نہیں کیا اور نیز دروغ گوئی کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے ہیں۔
[٩٣] ان آیات سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ جو شخص اپنے دل کی خوشی کے بجائے زکوٰۃ کو تاوان سمجھ کر یا معاشرہ کے دباؤ کے تحت مجبور ہو کر بادل نخواستہ زکوٰۃ ادا کرے وہ منافق ہے اور دوسرے یہ کہ ایسے منافق کی زکوٰۃ قبول نہیں کی جائے گی اور اگر وہ ازخود ادا کر بھی دے تو اس کا آخرت میں اسے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ منافقوں کا قصور یہی نہیں ہوتا تھا کہ دعا کے وقت جو وہ انفاق فی سبیل اللہ کا وعدہ کرتے تھے وہ پورا نہ کرتے تھے بلکہ آپ کے محصل کے سامنے جھوٹ بول کر ٹال مٹول بھی کرتے رہتے تھے۔ جبکہ آج کل کے بعض نام نہاد مسلمانوں کا بھی یہی وطیرہ ہے۔