يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اے پیغمبر ! کافروں اور منافقوں دونوں سے جہاد کر اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آ (کیونکہ کافروں کی عہد شکنیاں اور منافقوں کا عذر فریب اب آخری درجہ تک پہنچ چک ہے) بالآخر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے (اور جس کا آخری ٹھکانا دوزخ ہو تو) کیا ہی بری پہنچنے کی جگہ ہے۔
[٨٨] منافقوں پر غزوہ تبوک تک سختی کیوں نہ کی گئی؟۔ (١) آپ کی نرمی (٢) داخلی انتشار ( ٣) اغیار کے طعنے۔ یہ آیات غزوہ تبوک کے بعد نازل ہوئیں جبکہ منافقوں کو اپنی سازشوں اور اسلام دشمن سرگرمیوں میں نو سال گزر چکے تھے اب تک ان منافقوں سے جو نرم رویہ اختیار کیا جاتا رہا اس کی متعدد وجوہ تھیں۔ پہلی وجہ تو یہی تھی کہ آپ طبعاً نرم خو واقع ہوئے تھے۔ آپ کی طبیعت مجرم کو سرزنش کرنے یا سزا دینے کی بجائے اس سے درگزر کرنے اور اسے معاف کردینے کی طرف زیادہ مائل رہتی تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اگر آپ ان پر سختی کرتے تو مسلمانوں کے اندر داخلی فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا اور غزوہ تبوک سے پہلے پہلے مسلمانوں کی سلطنت اتنی مضبوط نہیں تھی کہ بیرونی اور اندرونی ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کرسکے اور اگر ایسا کام کرنا ہی پڑتا تو اسلام کی نشر و اشاعت کے مقاصد بہت پیچھے جا پڑتے۔ اس کی تیسری وجہ اغیار یعنی غیر مسلموں کے طعنے تھے چنانچہ غزوہ بنی مصطلق کی واپسی پر جب عبداللہ بن ابی نے اوس اور خزرج کے درمیان انتشار کا فتنہ کھڑا کرنے کی کوشش کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نازیبا کلمات کہے تو سیدنا عمرضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ میں اسے قتل نہ کر دوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر سے کہا ’’نہیں جانے دو لوگ کیا کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کرنے لگا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ باب (یَقُوْلُوْنَ لَیِٕنْ رَّجَعْنَآ .....) منافقوں پر سختی اور جبر کی صورتیں :۔ مگر جب ان لوگوں کی ریشہ دوانیاں حد سے بڑھ گئیں تو ان آستین کے سانپوں سے سختی سے نمٹنے کا حکم دیا گیا۔ واضح رہے کہ کفار سے جہاد سے مراد بسا اوقات تلوار سے جنگ ہی ہوتی ہے۔ مگر منافقوں سے ایسی جنگ اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ اسلامی احکام ظاہری احوال پر لاگو ہوتے ہیں اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوتا ہے۔ اور منافقوں کو اسلام لانے کا سب سے بڑا فائدہ ہی یہ تھا کہ ان کے جان و مال محفوظ رہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان منافقوں سے کسی وقت بھی قتال بالسیف نہیں کیا۔ یہاں منافقوں سے جہاد اور ان پر سختی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ ان کی باتوں پر اعتماد نہ کیا جائے۔ ان کی فتنہ پردازیوں پر پردہ نہ ڈالا جائے تاکہ انہیں مسلم معاشرہ میں نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع نہ مل سکے اور ان کی سازشوں کو کھلم کھلا بے نقاب کیا جائے۔ ان کی شہادت کو معتبر نہ سمجھا جائے۔ انہیں جماعتی مشوروں سے الگ رکھا جائے کوئی عہدہ یا منصب ان لوگوں کے سپرد نہ کیا جائے۔ ان سے مخلصانہ میل جول اور تعلقات قطع کیے جائیں تاکہ ان لوگوں پر خوب واضح ہوجائے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں ان کے لیے عزت و وقار کا کوئی مقام نہیں ہے۔