أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ وَأَصْحَابِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ ۚ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
کیا انہیں ان لوگوں کی خبر نہیں ملی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں؟ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم ابراہیم اور مدین کے لو اور وہ کہ ان کی بستیاں الٹ دی گئی تھیں؟ ان سب کے رسول ان کے پاس روشن دلیلوں کے ساتھ آئے تھے (مگر وہ اندھے پن سے باز نہ آئے) اور ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ اللہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔
[٨٤] یہ سب اقوام ایسی ہیں جن کا اپنے اپنے وقتوں میں ڈنکا بجتا تھا۔ پھر جب انہوں نے اللہ کے رسول اور اس کی آیات کو جھٹلایا اور نافرمانی اور مخالفت کی راہ اختیار کی تو ان پر اللہ کی طرف سے ارضی یا سماوی عذاب آیا جس نے انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ ایسی قوموں کے حالات کی تفصیل پہلے سورۃ اعراف میں بھی گزر چکی ہے اور آئندہ بھی متعدد مقامات پر مذکور ہوگی۔ الٹائی ہوئی بستیوں سے مراد سیدنا لوط علیہ السلام کی قوم کی بستیاں ہیں۔ سیدنا جبریل نے بحکم الٰہی ان بستیوں کو اپنے پر کے اوپر اٹھایا اور بلندیوں پر لے جا کر انہیں اٹھا کر زمین پر دے مارا تھا۔ پھر بھی اس قوم پر اللہ کا غضب کم نہ ہوا تو ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ سیدنا لوط کا مرکز تبلیغ سدوم کا شہر تھا۔ اور یہ الٹائی ہوئی بستیاں غالباً آج کل بحیرہ مردار میں دفن ہوچکی ہیں۔ [٨٥] یعنی اللہ تعالیٰ کو نہ ان لوگوں سے کوئی دشمنی تھی، نہ انہیں عذاب دینے کا شوق تھا اور نہ ضرورت تھی بلکہ جس طریق زندگی کو انہوں نے اختیار کیا اور اس پر مصر رہے وہ راستہ ہی ہلاکت اور بربادی کا تھا اور اس بات کی اطلاع انہیں رسولوں کے ذریعہ دی جا چکی تھی۔