قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ۖ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَن يُصِيبَكُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا ۖ فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ
(اے پیغمبر تم ان سے) کہو : تم ہمارے لیے جس بات کا انتظار کرتے ہو (یعنی جنگ میں قتل ہوجانے کا) وہ ہمارے لیے اس کے سوا کیا ہے کہ دو خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے (یعنی فتح اور شہادت میں سے شہادت) اور ہم تمہارے لیے جس بات کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ اپنے یہاں سے کوئی عذاب بھیج دے یا ہمارے ہی ہاتھوں عذاب دلائی۔ تو اب (نتیجہ کا) انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والے ہیں۔
[٥٦] مسلمان اور منافق سب کو دو باتوں کا انتظار ہے :۔ یعنی اے منافقو! تم ہمارے متعلق صرف یہ انتظار کر رہے ہو کہ مسلمان شاہ روم سے شکست کھاتے ہیں یا اس کے مقابلہ میں کامیاب ہوتے ہیں جبکہ ہماری سوچ یہ ہے کہ ہم ہر حال میں کامیاب ہی کامیاب ہیں۔ اگر فتح ہوئی اور مال غنیمت سمیت گھروں کو واپس آ گئے تو اسے تو تم بھی کامیابی سمجھتے ہو اور اگر ہم شہید ہوگئے تو پھر بھی ہماری کامیابی ہے اور ضمیر مطمئن کہ راہ حق میں جان دے دی اور پھر آخرت میں جنت بھی ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ جو شخص میری راہ میں نکلے اور اس کو مجھ پر ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کے علاوہ اور کسی چیز نے نہ نکالا ہو تو میں اسے یا تو اجر اور غنیمت کے ساتھ واپس کر دوں گا یا جنت میں داخل کروں گا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب الجہاد من الایمان) (مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب فضل الجہاد والخروج فی سبیل اللہ) اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ احدی الحسنیین سے مراد فتح یا شہادت ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور تمہارے متعلق ہماری سوچ بھی دو باتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ تو یقینی بات ہے کہ تمہیں سزا مل کے رہے گی۔ اب ہم اس انتظار میں ہیں کہ آیا یہ سزا اللہ تمہیں خود ہی کوئی عذاب بھیج کردیتا ہے۔ یا تمہیں ہمارے ہاتھوں سے دلواتا ہے۔ لہٰذا تم اپنی سوچ کے مطابق انتظار کرو اور ہم اپنی سوچ کے مطابق انتظار کرتے ہیں۔