لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّىٰ جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ
(اے پیغمبر) یہ واقعہ ہے کہ ان لوگوں نے اس سے پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوششیں کیں اور تمہارے خلاف ہر طرح کی تدبیریں الٹ پلٹ کر آزمائیں (چنانچہ جنگ احد میں انہوں نے اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں کی تھی) یہاں تک کہ سچائی نمایاں ہوگئی اور اللہ کا حکم غالب ہوا اور ایسا ہونا ان کے لیے خوشگوار نہ تھا۔
[٥٢] عبداللہ بن ابی کا فتنہ :۔ منافقوں کی فتنہ انگیزیوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ عبداللہ بن ابی کو دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پیشتر عبداللہ بن ابی کے سر پر اوس و خزرج دونوں کی سرداری کا تاج رکھا جانے والا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اس کی سرداری کا معاملہ کھٹائی میں پڑگیا۔ یہی وہ حسد اور کینہ تھا جس نے اسے اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر عمر بھر اکسائے رکھا۔ غزوہ بدر سے پہلے اس کی قریش مکہ سے مراسلت رہی۔ پھر جب بدر میں قریش مکہ کو شکست فاش اور مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب ہوئی تو یہ جل بھن گیا مگر اپنے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ظاہری طور پر تو اسلام قبول کرلیا مگر دل میں اسلام دشمنی بدستور موجود رہی۔ جنگ احد میں اس نے مسلمانوں سے غداری کی اور نہایت نازک موقع پر اپنے تین سو ساتھیوں کو لشکر سے کاٹ لایا تاکہ مسلمان شکست سے دو چار ہوں۔ زندگی بھر اس کی ہمدردیاں یہودیوں سے رہیں۔ انہیں اکسا کر مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنا اس کا پسندیدہ شغل تھا۔ وہ بھی اس کی مہربانی سے مسلمانوں کے ہاتھوں پٹتے ہی رہے اور ہر موقعہ پر اللہ کی تائید مسلمانوں کے شامل حال رہی۔ غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر اس نے سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگا دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو ذہنی کوفت میں مبتلا کیے رکھا تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بریت نازل فرمائی۔ اسی غزوہ میں اس نے انصار کو اکسایا کہ اس نبی کو مدینہ سے نکال دو۔ پھر مسجد ضرار تعمیر کر کے انہی ناپاک سازشوں کے لیے ایک نیا اڈا بنا لیا۔ اور قیصر روم سے ساز باز شروع کردی۔ غرض ہر موقع پر اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسلام مغلوب ہو اور مدینہ کا رئیس اعظم میں بن جاؤں۔ آخر یہی حسرت دل میں لیے ہوئے اس نے اس جہان سے کوچ کیا۔