لَوْ خَرَجُوا فِيكُم مَّا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ
اگر یہ تم مسلمانوں میں (گھل مل کے) نکلتے تو تمہارے اندر کچھ زیادہ نہ کرتے مگر (ہر طرح کی) خرابی اور ضرور تمہارے درمیان فتنہ انگیزی کے گھوڑے دوڑاتے (کہ ادھر کی بات ادھر لگاتے، ادھر کی ادھر) اور تم جانتے ہو کہ تم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کی بات پر کان دھرنے والے ہیں (پس ظاہر ہے کہ ان کی موجودگی سے بجز فتنہ و فساد کے کچھ حاصل نہ ہوتا) اور اللہ جانتا ہے کون ظلم کرنے والے ہیں۔
[٥٠] میدان کارزار میں منافقوں کے فتنے :۔ یعنی ایسے منافقوں سے لشکر مجاہدین میں شامل ہونے پر بھی خیر اور بھلائی کی توقع کم تھی بلکہ الٹا یہ کئی طرح کی خرابیاں پیدا کرسکتے تھے۔ مثلاً جنگ سے فرار کی راہ اختیار کر کے دوسروں کے حوصلے بھی توڑ دیتے۔ یا دشمن کو اسلامی لشکر کے حالات سے مطلع کردیتے یا اس سے ساز باز شروع کردیتے۔ یا اسلامی لشکر میں اختلاف کا سبب بن جاتے اور ان میں باہمی نزاع پیدا کردیتے یا بے بنیاد افواہیں اڑا کر مسلمانوں میں بد دلی پھیلانے لگتے۔ لہٰذا اللہ کی مشیئت میں ان کا نہ جانا ہی بہتر تھا۔ [٥١] سادہ لوح مسلمانوں کو ہدایت :۔ یعنی اے مسلمانو! تم میں بھی بعض ایسے سادہ لوح افراد موجود ہیں۔ جو ان منافقوں کی باتیں بڑے غور سے سنتے اور ان سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ وہ انہیں اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔ جو منافقوں کے لیے جاسوسی کرتے ہیں۔ تاکہ مسلمانوں کے حالات سے انہیں مطلع کرتے رہیں اور ایسے مسلمانوں کی نیت میں چونکہ فتور نہیں ہوتا اس لحاظ سے ان کی یہ اطلاعات مسلمانوں کے حق میں مفید بھی ہو سکتی ہیں۔ یعنی جب وہ مسلمانوں کی اولوالعزمی اور بے جگری سے لڑنے کے واقعات منافقوں سے بیان کریں گے تو خواہ مخواہ ان کے دلوں پر مسلمانوں کی ہیبت قائم ہوگی۔ تاہم اس آیت میں مسلمانوں کو یہی تنبیہ کی جا رہی ہے کہ ایسے سادہ لوح مسلمانوں کے بارے میں بھی تمہیں احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے کہ کہیں ان کی یہی سادہ لوحی تمہارے لیے کسی فتنہ کا موجب نہ بن جائے۔