يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ
مسلمانو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں قدم اٹھاؤ تو تمہارے پاؤں بوجھ ہو کر زمین پکڑ لیتے ہیں کیا آخرت چھوڑ کر صرف دنیا کی زندگی ہی پر ریجھ گئے ہو؟ (اگر ایسا ہی ہے) تو (یاد رکھو) دنیا کی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہے مگر بہت تھوڑی۔
[٤٠] غزوہ تبوک میں مسلمانوں کے مقابل اتحادی، عیسائی، مشرک قبائل،مدینہ کے منافق اور یہود :۔ یہاں سے ایک بالکل نیا مضمون یعنی غزوہ تبوک کا آغاز ہو رہا ہے جس کا پس منظر یہ تھا کہ مکہ اور حنین کی فتح کے بعد جب عرب بھر میں اسلام کا بول بالا ہوگیا تو شام کی سرحد پر بسنے والے عرب قبائل اور ان کے بادشاہ غسان نے جو قیصر روم کے ماتحت تھے، مسلمانوں کی ان کامیابیوں کو اپنے لیے عظیم خطرہ سمجھا اور مسلمانوں بلکہ اسلام کی کمر توڑنے کے لیے ایک فیصلہ کن جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔ دوسری طرف عرب بھر میں شکست خوردہ مشرکین اس کی مدد کو موجود تھے اور تیسری طرف مدینہ کے منافقین نے ابو عامر راہب کی وساطت سے غسان اور قیصر روم سے ساز باز شروع کر رکھی تھی۔ یہود بھی ان منافقوں کا ساتھ دے رہے تھے اور منافقوں نے اسی ساز باز کی غرض سے مسجد ضرار بھی تعمیر کی تھی۔ گویا کفر کی اندرونی اور بیرونی طاقتیں اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شام کی سرحد پر رومی فوجوں کے عظیم اجتماع کی خبریں دم بدم پہنچ رہی تھیں۔ مسلمانوں کے حالات کی ناساز گاری :۔ دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں قحط سالی کا دور دورہ تھا۔ شدید گرمی کا موسم تھا۔ فصلیں پکنے کے قریب تھیں۔ فاصلہ دور کا اور پر مشقت تھا سامان اور سواریوں کی کمی تھی اور مقابلہ اس عظیم طاقت سے تھا جس نے حال ہی میں کسریٰ شاہ ایران کو شکست دے کر دنیا پر اپنے رعب و دبدبہ کی دھاک بٹھا رکھی تھی۔ گویا ہر لحاظ سے یہ حق و باطل کی فیصلہ کن جنگ تھی۔ انہیں حالات میں اللہ کا نام لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ روم سے ٹکر لینے کا فیصلہ کرلیا اور مسلمانوں میں عام اعلان جہاد کردیا۔ اور معمول کے خلاف سب کو صاف صاف بتلا دیا کہ شام کو جانا ہے اور ملک غسان اور قیصر کے مقابلہ کے لیے جانا ہے ان حالات میں منافقوں کا جنگ سے جی چرانا تو فطری امر تھا بعض کمزور دل اور ضعیف اعتقاد والے مسلمان بھی تذبذب میں پڑگئے تھے۔ اس آیت میں انہیں ہی خطاب کیا جا رہا ہے اور جہاد کی پرزور ترغیب دی جا رہی ہے۔ [٤١] جہاد میں عدم شمولیت سے تم زیادہ سے زیادہ اپنی جانیں یا کچھ مال بچا لو گے۔ فصلیں کاٹ لو گے یا سفر کی صعوبتوں سے بچ جاؤ گے اور یہ سب مفادات جنت کی دائمی نعمتوں کے مقابلہ میں کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتے۔