سورة التوبہ - آیت 36

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ مہینے کی ہے۔ اللہ کی کتاب میں ایسا ہی لکھا گیا جس دن آسمانوں کو اور زمین کو اس نے پیدا کیا (یعنی جب سے اجرام سماویہ بنے ہیں خدا کا ٹھہرایا ہوا حساب یہی ہے) ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت کے مہینے ہوئے (یعنی رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم کہ امن کے مہینے سمجھے جاتے تھے اور لڑائی ممنوع تھی) دین کی سیدھی راہ یہ ہے۔ پس ان حرمت کے مہینوں میں (جنگ و خوں ریزی کر کے) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور چاہیے کہ تمام مشرکوں سے بلا استثنا جنگ کرو جس طرح وہ تم سے بلا استثنا جنگ کرتے ہیں اور (ساتھ ہی) یاد رکھو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو (ہرحال میں) تقوی والے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٧] حرمت کے مہینوں میں تقدیم و تاخیر، حرمت کے مہینے عرب کا رواج ہے جسے اسلام نے بحال رکھا :۔ جس طرح اہل کتاب اپنی اغراض اور دینی مفاد کی خاطر احکام الٰہی میں ہیرا پھیری کرلیتے تھے اسی طرح عرب کے مشرکین بھی کرلیا کرتے تھے اور اسی مناسبت سے یہاں ان کا ذکر آ رہا ہے۔ مشرکین عرب کے نزدیک چار ماہ حرمت والے تھے۔ ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم حج کے لیے اور رجب عمرہ کے لیے۔ ان مہینوں میں لوٹ مار اور جدال و قتال حرام تھا اور اس دوران لوگ آزادی کے ساتھ سفر اور تجارت وغیرہ کرسکتے تھے۔ اگرچہ لوٹ مار اور لڑائی جھگڑا ہر وقت ہی ایک گناہ کا کام تھا تاہم ان مہینوں میں اسے شدید تر گناہ سمجھا جاتا تھا لیکن مشرک اپنی اغراض کی خاطر ان مہینوں میں ادل بدل کر کے سال میں چار حرمت والے مہینوں کی تعداد پوری کرلیتے تھے۔ مثلاً کوئی زور آور قبیلہ جب محرم میں اپنے کسی کمزور دشمن قبیلے سے انتقام لینایا جنگ چھیڑنا چاہتا تو وہ یہ اعلان کردیتا کہ اس سال محرم کے بجائے صفر حرمت والا مہینہ قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس طرح وہ اپنی من مانی اغراض پوری کرلیتا اور اگلے سال پھر اعلان کردیتا کہ اس سال محرم کا مہینہ ہی حرمت والا مہینہ شمار ہوگا۔ اور اس غرض کے لیے رد و بدل عموماً محرم اور صفر کے متعلق ہی ہوا کرتا تھا۔ اور ایسا اعلان کرنے والا شخص بنو کنانہ کا ایک سردار تلمس تھا۔ اس طرح یہ لوگ مہینوں کی حلت و حرمت کے خود بخود ہی مختار بن بیٹھے تھے۔ قمری تقویم ہی حقیقی تقویم ہے :۔ دوسری بات جو اس آیت میں بتلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وقت کی پیمائش کا قدرتی طریقہ قمری تقویم ہے شمسی نہیں۔ ایک ماہ کی مدت ایک ہلال کی رؤیت سے لے کر اگلے ہلال کی رؤیت تک ہے اور یہ مدت کبھی تیس دن ہوتی ہے اور کبھی انتیس۔ نہ ٢٩ دن سے کم ہو سکتی ہے اور نہ ٣٠ دن سے زیادہ۔ ایسے جب بارہ ماہ گزر جائیں تو یہ ایک سال کی مدت ہے جو کبھی ٣٥٤ دن کا ہوتا ہے کبھی ٣٥٥ دن کا۔ نہ اس سے کم نہ زیادہ۔ کیونکہ بارہ مہینے گزرنے پر تقریباً ویسا ہی موسم آ جاتا ہے جیسا کہ ایک سال پہلے تھا۔ قمری تقویم کی حکمت :۔ جن شرعی احکام میں ایک ماہ یا اس سے زائد مدت کا تعلق ہو تو اس میں قمری ماہ ہی شمار ہوں گے جیسے عدت و رضاعت کے احکام۔ نیز روزہ اور حج و عمرہ کا تعلق بھی قمری مہینوں سے ہے اور عیدین کا بھی۔ قمری سال شمسی سال سے تقریباً دس دن چھوٹا ہوتا ہے۔ اور موسموں اور فصلوں کے پکنے کا تعلق سورج اور موسم سے ہوتا ہے چاند سے نہیں ہوتا۔ شرعی احکام کی بجاآوری کے لیے قمری تقویم کو بنیاد بنانے کی حکمت یہ ہے کہ مثلاً حج کے سفر کے لیے مسلمان ہر موسم کی صعوبتیں برداشت کرنے کے خوگر ہوجائیں۔ نیز رمضان کا مہینہ کسی خاص ملک میں ایک ہی موسم میں نہ آیا کرے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک ملک میں تو روزے ہمیشہ سرد موسم میں اور چھوٹے دنوں کے آیا کریں اور دوسرے ملک میں گرم موسم اور بڑے دنوں کے آیا کریں۔ [٣٨] جہاد قیامت تک جاری رہے گی :۔ آیت کے اس جملہ میں مسلمانوں کو دو قسم کی ہدایات دی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتداء تمہاری طرف سے ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ ہاں اگر مشرک لڑائی چھیڑ ہی دیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ دوسری یہ کہ جس طرح مشرکوں کے سب قبائل اپنی باہمی رنجشیں چھوڑ کر تمہارے مقابلہ میں متحد ہوجاتے ہیں اسی طرح تمہیں بھی ان کے مقابلہ میں اکٹھے ہو کر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے نیز کَآفَۃً کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تمہیں ہر حال میں مشرکوں کا مقابلہ کرنا چاہیے جس سے ضمناً یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفر اور مشرکین سے جہاد قیامت تک کے لیے فرض ہے۔ اس آیت اور اس مضمون کی دوسری آیات جن میں جہاد کی ترغیب دی گئی ہے مخالفین اسلام نے یہ پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور اس اعتراض کے کئی بار کافی و شافی جواب بھی دیئے جا چکے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ اعتراض نہ نقلی اعتبار سے درست ہے نہ عقلی اعتبار سے اور نہ تاریخی اعتبار سے ذیل میں ہم انہی باتوں کا مختصر سا جائزہ پیش کر رہے ہیں :۔ نقلی اعتبار سے یہ اعتراض درج ذیل آیات کی رو سے غلط ہے۔ ١۔ ﴿ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ﴾ (2: 256)دین میں کوئی جبر یا زبردستی نہیں۔ ٢۔ ﴿ اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ﴾ (10: 99)کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے؟ ٣۔ ﴿فَمَنْ شَاۗءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْیَکْفُرْ ﴾ جو شخص چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔ ایسی واضح آیات کی موجودگی میں کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہوگی اور کسی شخص کو تلوار دکھا کر یا کسی دباؤ کے ذریعہ اسلام لانے پر مجبور کیا ہوگا ؟ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اسے پناہ دو تاآنکہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کی امن کی جگہ تک پہنچا دو۔‘‘ غور فرمائیے کہ دباؤ کا اس سے بہتر بھی کوئی موقع ہوسکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اسے مجبور کرو کہ وہ اسلام لائے یا پھر اسے موت کے گھاٹ اتار دو بلکہ یوں فرمایا کہ اسے اللہ کا کلام سنانے کے بعد اسے اس کی مرضی پر چھوڑ دو۔ پھر اگر وہ اسلام لانے پر آمادہ نہ ہو تو اسے اس کے محفوظ علاقہ تک پہنچانا بھی پناہ دینے والے کے ذمہ ڈال دیا گیا۔ کیا اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جس شان و شوکت اور رعب و دبدبہ والے خلیفہ تھے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ کا ایک غلام اسبق نامی عیسائی تھا۔ وہ چونکہ سمجھدار اور ہوشیار آدمی تھا لہٰذا سیدنا عمر نے اسے کہا کہ اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو ہم مسلمانوں کے کام میں تم سے مدد لیں گے۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ آپ اسے کوئی اچھا منصب دینا چاہتے تھے۔ لیکن جب اس پر اسلام پیش فرماتے تو وہ انکار کردیتا اور آپ لاَاِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ کہہ کر چپ ہوجاتے (الجہاد فی الاسلام ص ١٦٣) گویا تلوار یا دباؤ کے ذریعہ تو سیدنا عمر اپنے غلام کو بھی مسلمان نہ بنا سکے پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ وسیع و عریض مفتوحہ علاقہ میں انہوں نے مفتوحین کو تلوار کے ذریعہ مسلمان بنا لیا ہوگا ؟ اور عقلی اعتبار سے یہ مفروضہ اس لیے غلط ہے کہ تلوار کے ذریعہ کسی سے کوئی بات منوائی نہیں جا سکتی اور کوئی شخص وقتی طور پر دباؤ کے تحت کوئی بات مان بھی جائے تو اس بات پر قائم و دائم نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مسلمان ہوئے وہ دل و جان سے اسلام کے اس طرح فدائی و شیدائی بن گئے کہ کفار کے ظلم اور مصائب برداشت کرتے رہنے کے باوجود اس دین سے باز نہیں آتے تھے اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تلوار یا دباؤ سے بات منوائی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ اس وقت تلوار یا دباؤ کفار مکہ کے ہاتھ میں تھا اور آج بھی اگر کوئی شخص یا کوئی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ دین کو تلوار کے ذریعے پھیلانا ممکن ہے تو اپنا دین پھیلا کر دکھا دے۔ اور تاریخی لحاظ سے یہ اس لیے غلط ہے کہ اگر اس نظریہ کو تسلیم کرلیا جائے تو مندرجہ ذیل سوالات ذہن میں ابھر آتے ہیں۔ ١۔ ابتداً جو لوگ مسلمان ہوئے اور ١٣ سال تک مکہ میں ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہے، انہیں کونسی تلوار نے مسلمان بنایا تھا ؟ ٢۔ مکہ میں مسلمانوں کے دشمن صرف قریش مکہ تھے لیکن مدینہ میں دشمنوں کی تعداد ایک سے چار ہوگئی تھی۔ قریش مکہ۔ یہود مدینہ۔ منافقین اور عرب بھر کے مشرک قبائل اور مسلمان ان کے مقابلہ میں انتہائی کمزور تھے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ غزوہ بدر میں شامل ہونے والوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی جبکہ ایک سال بعد جنگ احد میں خالص مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی یعنی دگنی سے بھی زیادہ۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کے پاس کونسی تلوار تھی کہ اسلام اس تیزی سے بڑھنے لگا تھا ؟ ٣۔ مزید دو سال بعد جنگ خندق میں لڑنے والے مسلمانوں کی تعداد تین ہزار یعنی چار گنا سے زیادہ ہوگئی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس کونسی تلوار یا قوت تھی جو لوگوں کو مسلمان بنائے جا رہی تھی؟ ٤۔ صلح حدیبیہ میں کونسی تلوار چلائی گئی تھی جس کے نتیجہ میں لوگ دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہونے لگے تھے؟ ٥۔ فتح مکہ میں تلوار تو چلائی ہی نہیں گئی تاہم فتح کے بعد جب لوگوں کو عام معافی مل گئی تھی تو انہیں اسلام لانے پر کونسی تلوار نے مجبور کیا تھا؟ ٦۔ یہود سے جو جنگیں ہوئیں تو ان کے نتیجہ میں کوئی یہودی مسلمان بنا تھا ؟ ٧۔ محاصرہ طائف میں محاصرہ اٹھا لینے کے بعد اہل طائف کو کونسی مجبوری پیش آ گئی تھی کہ وہ از خود اسلام لے آئے تھے؟ اشاعت اسلام کے اصل اسباب :۔ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ تو واضح ہوجاتا ہے کہ تلوار کے ذریعہ اسلام پھیلنے کا نظریہ غلط ہے لیکن اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ’’اسلام واقعی نہایت کثرت سے پھیلا تھا۔‘‘ لہٰذا ہمیں وہ اسباب تلاش کرنے چاہئیں جو اس کثرت اشاعت کا سبب بنے۔ ہمارے خیال میں یہ اسلام کی ذاتی خصوصیات ہیں جن میں سے چند ایک کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔ ١۔ کثرت اشاعت اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب معاشرتی مساوات ہے یعنی جب کوئی شخص یا قوم اسلام لاتی ہے تو اسے سابقہ مسلمانوں جیسا معاشرتی درجہ حاصل ہوجاتا ہے اور وہ آپس میں بھائی بھائی بن جاتے اور سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس کی مثالیں قرون اولیٰ میں بے شمار ہیں مگر ہم طوالت سے بچنے کی خاطر اپنے ہی ملک کی ایک دو مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں :۔ ا۔ الف ٤ جولائی ١٩٨١ ء کے نوائے وقت میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ’’جنوبی بھارت میں اونچی ذات کے ہندوؤں کے مظالم سے تنگ آ کر ١٣٠٠ ہریجنوں نے اسلام قبول کرلیا۔‘‘ غور فرمائیے کہ اونچی ذات کے ہندو یعنی برہمن بھی ہندو ہیں اور نیچی ذات کے ہریجن بھی ہندو ہی ہیں لیکن محض معاشرتی تفاوت کی بنا پر اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ آخر انہیں کونسی تلوار نے اسلام لانے پر مجبور کیا تھا؟ پھر دوسرے دن یعنی ٥ جولائی کو اسی نوائے وقت میں ہندوستان کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کی طرف سے یہ خبر شائع ہوئی کہ ’’مجھے تکلیف ان لوگوں کی اسلام لانے پر نہیں بلکہ اسباب پر ہے۔‘‘ اور یہ ''اسباب'' جن پر وزیراعظم صاحبہ کو تکلیف ہوئی وہ ان کے مذہب کا جزولاینفک ہیں۔ ہندومت، برہمن کو تو بالاتر مخلوق سمجھتا ہے اور شودر کو انسان بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ شودر برہم کا پیدائشی غلام ہے اور غلامی کا یہ پھندا کسی صورت اس کی گردن سے اتر نہیں سکتا۔ انہی ''اسباب'' کو اسلام نے ختم کیا اور انہی اسباب کے خاتمہ کی و جہ سے اسلام ہر دور میں پھیلتا رہا اور ہندوستان میں بھی پھیلا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ان برہمنوں نے ہندومذہب کی اس انسانیت کش ذات پات کی تقسیم سے تنگ آکر آخراسلام ہی کیوں قبول کیا کوئی دوسرا مذہب کیوں نہ قبول کرلیا اس بات کا جواب آپ کو درج ذیل واقعہ سے مل جائے گا۔ ب۔ ٣١ جولائی ١٩٨١ ء نوائے وقت میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ’’پانڈی چری میں ڈیڑھ ہزار ہریجن مسلمان ہو گئے‘‘ اور ٣٠ جولائی یعنی ایک دن پہلے یہ خبر شائع ہوئی کہ ہریجنوں کے لیڈر مسٹر سی کرشنا مورتی نے اسلام لانے کے بعد اخباری نمائندوں کو بتایا کہ عیسائی مذہب قبول کرنے سے ان کی سماجی حیثیت بلند نہیں ہوتی لیکن اسلام لانے سے ہمارا سماجی مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ ہمارا یہ فیصلہ حتمی ہے اور اس میں کوئی سیاسی مصلحت نہیں۔۔ واضح رہے کہ اس سے قبل تامل ناڈو کے موضع منبا کشی پورم میں ہریجنوں نے اجتماعی طور پر مذہب اسلام قبول کرلیا ہے۔ (نوائے وقت حوالہ مذکورہ صفحہ ٥) تہذیب ومعاشرت کی مساوات :۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آج کے جمہوری اور مہذب ترین ممالک میں گورے اور کالے کے جھگڑے اور امیر اور غریب کے مسائل بدستور موجود ہیں۔ عیسائیوں کے ہاں امراء کے گرجے ہی الگ ہوتے ہیں اور بعض گرجوں میں امراء کے لیے کرسیاں اور غریبوں کو فرش پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ لیکن اسلام ہر طرح کے امتیازات کو ختم کر کے سب کو ایک صف میں لاکھڑا کرتا ہے۔ یہاں بلال رضی اللہ عنہ حبشی جیسے پست قد، کالے رنگ اور موٹے ہونٹوں والے آزاد شدہ غلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے کہ اَرِحْنا یا بلال اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے رعب و دبدبہ والے خلیفہ آپ کو سیدنا بلال کہہ کر پکارا کرتے تھے اور یہ خوبی غالباً اسلام کے علاوہ دوسرے کسی دین میں نہیں پائی جاتی۔ دوسرا سبب قانونی مساوات :۔ اشاعت اسلام کا دوسرا سبب قانونی مساوات ہے۔ قانونی مساوات کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی ممتاز سے ممتاز فرد حتیٰ کہ امیر یا صدر یا بادشاہ بھی قانون کی دسترس سے بالاتر نہیں ہوتا اور یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو اسلامی ریاست کے علاوہ کہیں پایا جانا ممکن نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایسی ریاست کا اقتدار اعلیٰ خود اللہ کی ذات ہوتی ہے۔ کوئی ایک فرد یا ادارہ یا پارلیمنٹ نہیں ہوتی۔ باقی سب لوگ اللہ کے ایک جیسے محکوم اور اطاعت گزار بندے ہوتے ہیں۔ اور جمہوریت کا دعوی کرنے والے ممالک حتیٰ کہ پاکستان کا یہ حال ہے کہ صدر مملکت، وزیراعظم، گورنر اور وزرائے اعلیٰ پر نہ تو کوئی فوجداری مقدمہ دائر ہوسکتا ہے اور نہ انہیں عدالت کسی فوجداری مقدمہ میں ملوث قرار دے سکتی ہے اور ملک کی کوئی بڑی سے بڑی عدالت بھی انہیں طلب نہیں کرسکتی۔ جب کہ اسلامی ریاست کا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو پیش کر کے یہ اعلان کردیا کہ ’’جس کسی نے مجھ سے کوئی بدلہ یا قصاص لینا ہو وہ آج لے سکتا ہے‘‘ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ قریش کی ایک عورت فاطمہ مخزومی نے چوری کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حد موقوف کرنے کی سفارش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ہی یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دیتے اور اگر شریف وہی جرم کرتا تو اس کی سزا موقوف کردی جاتی۔ یہ تو فاطمہ مخزومی کی بات ہے اللہ کی قسم! اگر میری اپنی بیٹی فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الحدود۔ باب اقامہ الحدود ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء نے ایسا نظام عدالت رائج کیا جہاں مفت اور بلاتاخیر انصاف حاصل ہوتا تھا۔ خلافت راشدہ کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ خلیفہ وقت کو مدعی یا مدعا علیہ کی صورت میں عدالت میں پیش ہونا پڑا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر مقدمہ کا فیصلہ ان کے خلاف صادر ہوا۔ دور فاروقی میں شام کے گورنر سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے سیدنا معاذ بن جبل کو رومیوں کے پاس سفیر بنا کر بھیجا۔ شنہشاہ کا دربار اور اس کی شان و شوکت دیکھ کر آپ نے فرمایا :۔ ’’تم لوگوں کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شہنشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان و مال کا اختیار ہے لیکن ہم نے جسے اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ اگر وہ زنا کرے تو اسے درے لگائے جائیں۔ چوری کرے تو ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں۔ وہ پردے میں نہیں بیٹھتا، اپنے آپ کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا اور مال و دولت میں اس کو ہم پر ترجیح نہیں۔‘‘ (الفاروق ص ١٢٥) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اپنے دور خلافت میں ان کی اپنی زرہ چوری ہوگئی جو آپ نے ایک یہودی کے پاس دیکھ لی تو سیدنا علی رضی اللہ نے یہ نہیں کیا کہ اس یہودی سے اپنی زرہ چھین کر اسے کیفر کردار تک پہنچا دیتے بلکہ قاضی شریح کی عدالت میں اس پر دعویٰ دائر کردیا اور اپنے بیٹے حسن اور غلام کو گواہ کے طور پر پیش کیا۔ قاضی شریح نے آپ کا مقدمہ صرف اس بنا پر خارج کردیا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں قبول نہیں اور عدل کے تقاضے پورے نہیں ہوتے حالانکہ عدالت کو خوب معلوم تھا کہ مدعی اور گواہ سب عادل اور ثقہ ہیں۔ عدل کی یہ صورت دیکھ کر اس یہودی نے زرہ بھی واپس کردی اور خود بھی مسلمان ہوگیا۔ غور فرمائیے کہ اس یہودی کو اسلام لانے پر کس نے مجبور کیا تھا اور کیا وہ اکیلا ہی مسلمان ہوا ہوگا یا اس کا خاندان اور قبیلہ بھی۔ ایسے واقعات دراصل انفرادی نتائج کے حامل نہیں ہوتے بلکہ ایک جہان کے افکار و نظریات میں تلاطم بپا کردیتے ہیں۔ اشاعت اسلام کی تیسری وجہ مسلمانوں کے اپنے کردار کی پاکیزگی ہے۔ صدر اول کے مسلمانوں کا سب سے بڑا ذریعہ تبلیغ ان کا اپنا عمل اور کردار تھا۔ ان کی زندگی سادہ اور تکلفات سے پاک تھی حتیٰ کہ دشمن بھی ان کے کردار کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا تھا۔ چنانچہ حمص اور دمشق میں شکست کھانے کے بعد شکست خوردہ عیسائی انطاکیہ پہنچے اور ہر قل شہنشاہ روم سے فریاد کی کہ اہل عرب نے تو تمام شام کو پامال کردیا۔ ہر قل نے ان میں سے چند تجربہ کار اور معزز آدمیوں کو دربار میں بلا کر پوچھا کہ عرب تم سے نہ جمعیت میں زیادہ ہیں نہ سر و سامان اور قوت میں۔ پھر تم ان کے مقابلہ میں کیوں نہیں ٹھہر سکتے؟ اس سوال پر سب نے ندامت سے سر جھکا لیا البتہ ایک تجربہ کار بڈھے نے عرض کی کہ : تیسرا سبب کردار کی پاکیزگی :۔ ’’بات یہ ہے کہ اہل عرب کے اخلاق ہم سے اچھے ہیں وہ رات کو عبادت کرتے اور دن کو روزے رکھتے ہیں۔ کسی پر ظلم نہیں کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ برابری سے ملتے ہیں اور ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں، بدکاریاں کرتے ہیں۔ عہد کی پابندی نہیں اور دوسرے پر ظلم کرتے ہیں اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں جوش اور استقلال پایا جاتا ہے اور ہمارا جو بھی کام ہوتا ہے ہمت اور استقلال سے خالی ہوتا ہے۔‘‘ (الفاروق ص ١٨٩) محمد بن قاسم سندھ اور ملتان کے علاقہ میں تھوڑی ہی مدت رہا۔ وہ عظیم جرنیل ہونے کے علاوہ صفات جہاں بانی سے بھی مالا مال تھا، رعایا، حکومت اور سندھی بت پرستوں سے مذہبی رواداری نے سندھیوں کے دلوں کو کچھ اس طرح موہ لیا تھا کہ جب محمد بن قاسم سندھ سے واپس گیا تو سندھی اس کی تصویریں بنا کر اپنے پاس رکھتے تھے وہ اسے رحمت کا فرشتہ سمجھتے تھے۔ پھر جب انہیں محمد بن قاسم کی دردناک موت کا حال معلوم ہوا تو سارے ملک نے سوگ منایا۔ (تاریخ اسلام۔ حمید الدین ص ٣٠٨) یہ سندھی لوگ مسلمان نہیں تھے۔ پھر آخر وہ کیا چیز تھی جس نے انہیں محمد بن قاسم کا اتنا گرویدہ بنا دیا تھا۔ محمد بن قاسم نے بھی انہیں مسلمان بنانے کی ہرگز کوشش نہیں کی تھی لیکن ان باتوں کے باوجود وہ ازخود اسلام کے قریب تر آ رہے تھے اور تھوڑے ہی عرصہ بعد مسلمان بھی ہوگئے تھے۔ کیا یہ بھی تلوار کا کرشمہ تھا ؟ چوتھا سبب معاملات کی صفائی :۔ اشاعت اسلام کا چوتھا سبب مسلمانوں کے معاملات کی صفائی ہے۔ اسلام میں اکل حلال کو بہت اہمیت حاصل ہے وہ جائز و ناجائز مال کی بڑی تفصیل سے وضاحت کرتا اور ناجائز ذرائع سے کمائے ہوئے مال کو حرام قرار دیتا ہے۔ لین دین اور معاملات کی صفائی ایسے حالات میں ایک امتحان بن جاتی ہے جب کسی محنت یا حق کا معاوضہ تو پیشگی لیا جا چکا ہو اور اس حق یا محنت کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا اختیار بھی کلیتاً معاوضہ وصول کرنے والے کے ہاتھ میں ہو۔ ایسی صورت میں اگر کوئی شخص یا ادارہ جائز و ناجائز یا حلال و حرام میں تمیز کرتا ہے تو وہ فی الواقع قابل تعریف ہے اور دوسرے لوگ اس کے کردار کی عظمت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ شام کی فتوحات کے سلسلہ میں کچھ جنگی مصلحتوں کے پیش نظر مسلمانوں کو حمص سے واپس دمشق جانا پڑا۔ مسلمانوں کے سپہ سالار سیدنا ابو عبیدہ بن جراح اہالیان حمص سے جزیہ وصول کرچکے تھے اور ان کی دفاعی حفاظت کی ذمہ داری قبول کرچکے تھے۔ آپ نے ان لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہا۔’’ہمیں جو تعلق تمہارے ساتھ تھا وہ اب بھی ہے مگر چونکہ اس وقت ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے لہٰذا تمہار اجزیہ جو اس خدمت کا معاوضہ تھا تمہیں واپس کیا جاتا ہے۔‘‘ چنانچہ آپ نے کئی لاکھ وصول شدہ رقم و اپس کردی۔ عیسائیوں پر اس واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے خدا تمہیں واپس لائے اور یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انہوں نے کہا، تورات کی قسم! جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کرسکتا، یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کردیئے گئے اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔ (الفاروق ص ١٩١) پانچواں سبب عفو و درگزر :۔ اشاعت اسلام کا پانچواں سبب عفو و درگزر ہے۔ جب کسی جانی دشمن پر پوری طرح قابو پا لیا جائے اس وقت اس کے جرائم سے چشم پوشی کر کے اسے معاف کردینا بڑے دل گردہ کا کام ہے۔ فتح مکہ ہی ایسی جنگ ہے جس میں دشمن پر پوری طرح تسلط حاصل ہوا۔ اگر اس وقت آپ ان سے بھرپور بدلہ لے لیتے تب بھی ان کی طرف سے کسی انتظامی کاروائی کا اسلام کو خطرہ لاحق نہیں ہوسکتا تھا اور یہی لوگ اسلام کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے جانی دشمن تھے۔ اس کے باوجود آپ نے عام معافی کا اعلان فرما دیا جس کا اثر یہ ہوا کہ اسلام اس تیزی اور کثرت سے پھیلا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ صلح حدیبیہ کے دوران ابتداً ٢٠٠ نوجوان مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے مگر شکست کھا کر گرفتار ہوگئے آپ نے ان سب کو خیر سگالی کے طور پر چھوڑ دیا اور چونکہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کی نیت سے آئے تھے لہٰذا بیعت رضوان مکمل ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توہین آمیز شرائط پر صلح کر کے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان فطرتاً جنگجو نہیں بلکہ صلح پسند ہیں۔ اس صلح کے بعد بھی اسلام کی خوب اشاعت ہوئی اور اس میں تلوار یا جبر کو کچھ عمل دخل نہ تھا بلکہ بظاہر مسلمانوں کی خفت تھی۔ لیکن نتیجہ اشاعت اسلام کی صورت میں سامنے آیا۔ قول فیصل :۔ یہ اور اس کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہیں جو اشاعت اسلام کا سبب بنیں۔ لیکن بایں ہمہ حقیقت یہی ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کو بھی ایک گونہ تعلق ضرور ہے خواہ یہ دسواں حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ معاندین اسلام اپنا سارا زور اس بات پر صرف کردیتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ یہ لوگ بھی انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔ دوسرا گروہ یعنی مسلمان اپنا سارا زور اس الزام کی مدافعت میں صرف کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت محض اس کی خوبیوں کی بنا پر ہوئی۔ ہمارے خیال میں یہ گروہ بھی دوسری انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ مانا کہ اسلام میں یہ خوبیاں موجود ہیں لیکن ان خوبیوں کو آشکار کرنے اور ''حق'' کو بروئے کار لانے کے لیے بھی قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ قوت اسلام کو تلوار کے ذریعہ مہیا ہوئی۔ اگر اشاعت اسلام میں تلوار کا کچھ بھی حصہ نہ تھا تو جہاد کی ترغیب کیوں دی گئی؟ اور کیا مکہ میں رہ کر اسلام بار آور نہ ہوسکتا تھا ؟ اشاعت اسلام میں تلوار کا حصہ :۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے دو حصے ہیں (١) امر بالمعروف (٢) نہی عن المنکر امر بالمعروف کو ماننا یا نہ ماننا مخاطب کی اپنی مرضی پر منحصر ہے ایک شخص اگر کسی دوسرے کو عقیدہ توحید یا آخرت یا اسلام لانے کی دعوت دیتا ہے اور وہ قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے تو اس پر نہ جبر کیا جا سکتا ہے اور نہ تلوار سے ڈرایا یا دھمکایا جا سکتا ہے اور جہاں تک نہی عن المنکر کا تعلق ہے تو یہ فریضہ قوت یا تلوار کے بغیر پورا ہو ہی نہیں سکتا۔ اسلام محض عقائد و نظریات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ جاوید قانون ہے جو مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے اور اس قانون کے نفاذ کے لیے قوت چاہتا ہے۔ اگر کسی جگہ ظلم ہو رہا ہو۔ زنا، چوری، ڈاکہ، قتل و غارت کی وارداتیں ہو رہی ہو۔ لوگوں کا امن و چین غارت ہو رہا ہو تو اسلام کا قانون حرکت میں آئے گا اور تلوار ہاتھ میں لے کر اس کی اصلاح کرے گا۔ خواہ یہ علاقہ مشرکین کا یا اہل کتاب کا اور خواہ اس میں مسلمان بھی رہتے ہوں۔ مکی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قوت نہیں تھی لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دونوں طرح کے کام زبانی تبلیغ سے سر انجام دیئے جاتے رہے۔ قرآن جیسا معجزانہ کلام، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سا بلند کردار، آپ کے جانثاروں کی قربانیاں، آپ کا تبلیغ میں اپنی جان تک کھپا دینا اور بہترین طریق تبلیغ، ان سب طرح کی کوششوں کے باوجود یہ تو نہ ہوسکا کہ قریش مکہ ایمان لاتے۔ بے شک وہ اسلام کی حقانیت کے دل سے معترف ہوچکے تھے لیکن اسلام اپنا ضابطہ اور پابندیاں بھی عائد کرتا تھا جو انہیں گوارا نہ تھیں نیز انہیں عرب بھر میں سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے جو مقام حاصل تھا۔ اسلام لا کر وہ اس سے دستبردار ہونے کو قطعاً تیار نہ تھے۔ ایسے بگڑے ہوئے لوگ ڈنڈے کے بغیر کبھی سیدھے نہیں ہو سکتے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے کبھی نہیں مانتے۔ تلوار کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی بگڑی ہوئی طبیعتوں کو راہ راست کی طرف لاتی اور راستہ کی ایسی رکاوٹوں کو دور کردیتی ہے۔ کیونکہ جب تک تعصب اور ہٹ دھرمی کا علاج نہ کیا جائے۔ تبلیغ خواہ کتنی ہی دلنشین انداز میں ہو غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ اگر تلوار کا اشاعت اسلام میں کچھ حصہ نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ہجرت کرنے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی۔ تلوار کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ تبلیغ کے بیج کے لیے زمین کو نرم کردیتی ہے۔ اسلام کی تلوار نے حق کی دشمن، معاند اور ہٹ دھرم قوتوں کا قلع قمع کر کے اسلام کے بیج کے لیے زمین کو ہموار اور نرم بنا دیا۔ اسلام کے بیج میں اتنی اہلیت اور قوت ہے کہ اگر اسے فضا سازگار میسر آ جائے تو پھل پھول کر تناور اور سدا بہار درخت بن سکتا ہے۔