سورة التوبہ - آیت 29

قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اہل کتاب میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر (سچا) ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت کے دن پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے (ان کی کتاب میں) حرام ٹھہرا دیا ہے اور نہ سچے دین ہی پر عمل پیرا ہیں تو (مسلمانو) ان سے (بھی) جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیں اور حالت ایسی ہوجائے کہ ان کی سرکشی ٹوٹ چکی ہو۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٧] اللہ اور آخرت پر ایمان کا صحیح مفہوم :۔ یہ خطاب اہل کتاب سے ہے حالانکہ وہ اللہ پر بھی اور آخرت پر بھی ایمان رکھنے کے مدعی تھے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ پر ایمان لانے کا حق ہے ویسے وہ ایمان نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے اللہ کے شریک بھی بنائے۔ خود باتیں گھڑ کر اللہ کے نام منسوب کیں۔ اللہ کی آیات کو چھپایا، انہیں بیچا، ان میں تحریف و تاویل کی۔ اگر وہ فی الواقع اللہ اور اس کی صفات پر ایمان لانے والے ہوتے تو یہ کام کبھی نہ کرتے۔ اسی طرح ان کا آخرت پر ایمان اس طرح کا تھا کہ بس ہم ہی جنت میں جائیں گے باقی سب دوزخ میں جائیں گے اس لیے کہ ہم اللہ کے چہیتے اور پیغمبروں کی اولاد ہیں اور اگر ہمیں آگ نے چھوا بھی تو بس چند دن کی بات ہے۔ اسی طرح نصاریٰ نے کفارہ مسیح کا عقیدہ گھڑا اور اللہ کے ہاں مسؤلیت سے بے خوف ہوگئے۔ آخرت پر ایمان لانے کے یہ معنی ہیں کہ انسان اس بات پر بھی یقین رکھے کہ وہاں کوئی سفارش، کوئی نسب، کوئی فدیہ، کسی بزرگ سے انتساب خواہ یہ نسلی ہو یا پیری مریدی کے رنگ میں ہو کچھ بھی کام نہ آسکے گا۔ [٢٨] یعنی جو کچھ ان کی شریعت میں ان پر نازل ہوا تھا اسے بھی پوری طرح تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اس رسول کی تو سینہ تان کر مخالفت پر اتر آئے ہیں۔ [٢٩] غیرمسلموں سے جزیہ :۔ اس آیت میں صرف اہل کتاب سے جزیہ لینے کا ذکر ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوس سے بھی جزیہ لیا تھا۔ جس سے معلوم ہوا کہ ہر مذہب کے غیر مسلموں سے جزیہ لیا جا سکتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بھی کسریٰ شاہ ایران سے جزیہ کے مطالبہ کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ لوگ سورج پرست اور آتش پرست تھے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا کسریٰ کے سپہ سالاروں کو خطاب :۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کسی جنگ کے موقع پر کسریٰ کے سپہ سالار سے فرمایا : ’’ہم عرب لوگ سخت بدبختی اور شدید مصیبت میں مبتلا تھے۔ بھوک کی وجہ سے چمڑے اور کھجور کی گٹھلیاں چوسا کرتے اور چمڑے اور بالوں کی پوشاک پہنتے تھے۔ درختوں اور پتھروں کی پوجا کرتے تھے۔ پھر زمین و آسمان کے مالک عزوجل نے ہماری طرف ہم میں سے ہی ایک نبی مبعوث کیا جس کے والدین سے ہم اچھی طرح واقف تھے۔ ہمارے نبی ہمارے پروردگار کے رسول نے ہمیں حکم دیا کہ تم سے جنگ کریں تاآنکہ تم اللہ اکیلے کی عبادت کرو یا پھر جزیہ ادا کرو۔ ہمارے نبی نے ہمیں پروردگار کا یہ پیغام بھی پہنچایا کہ جو شخص ہم میں سے قتل ہوگا وہ جنت کی ایسی نعمتوں میں رہے گا جو کسی نے دیکھی بھی نہیں۔ اور جو بچ گیا وہ تمہاری گردنوں کا مالک ہوگا۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب الجزیۃ الموادعۃ مع اہل الذمۃ والحرب) جزیہ ان غیر مسلم اقوام سے لیا جاتا ہے جو اسلام قبول نہ کرنا چاہتے ہوں۔ خواہ یہ مسلمانوں کی مفتوحہ قوم ہو۔ یا کسی اسلامی ریاست میں بطور ذمی رہتی ہو جسے آج کی زبان میں اقلیت کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں پر زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے جس کی شرح مقرر ہے لیکن غیر مسلم قوم پر زکوٰۃ کے بجائے جزیہ کی ادائیگی لازم ہوتی ہے اور اس کی شرح میں اس قوم کی مالی حیثیت کے مطابق کمی بیشی کی جاسکتی ہے اور یہ سب رقوم سرکاری بیت المال میں جمع ہوتی ہے۔ اسلامی حکومت اس جزیہ کے عوض اس قوم کو دفاعی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیتی ہے۔ اور انہیں اپنے مذہبی افعال کی ادائیگی کی پوری اجازت دی جاتی ہے مگر اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ اسلام پر کیچڑ اچھالیں یا اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کریں۔ اور اگر کسی وقت مسلمان غیر مسلموں پر سے دفاعی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرسکیں تو انہیں جزیہ کی رقم واپس دینا ہوگی اور مسلمانوں کی تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ چنانچہ شام کی فتوحات کے سلسلہ میں بعض جنگی مقاصد کے پیش نظر اسلامی سپہ سالار سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح کو جب حمص سے واپس جانا پڑا تو آپ نے ذمیوں کو بلا کر کہا کہ ’’ہمیں تم سے جو تعلق تھا وہ اب بھی ہے لیکن اب چونکہ ہم تمہاری حفاظت سے قاصر ہیں لہٰذا تمہارا جزیہ تمہیں واپس کیا جاتا ہے۔‘‘ چنانچہ کئی لاکھ کی وصول شدہ رقم انہیں واپس کردی گئی۔ عیسائیوں پر اس واقعہ کا اتنا اثر ہوا کہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے کہ اللہ تمہیں واپس لائے۔یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انہوں نے تورات کی قسم کھا کر کہا کہ جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کرسکتا۔ یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کرلیے اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔ (الفاروق۔ شبلی نعمانی ١٩١) عرب کی ہمسایہ اور متمدن حکومت ایران میں دو قسم کے ٹیکسوں کا رواج تھا ایک زمین کا لگان جو صرف زمینداروں سے لیا جاتا تھا اور اسے یہ لوگ خراگ کہتے تھے۔ خراج کا لفظ اسی سے معرّب ہے۔ دوسرا ٹیکس عام لوگوں سے دفاعی ضروریات کے پیش نظر لیا جاتا تھا۔ جسے یہ لوگ گزیت کہتے تھے۔ جزیہ کا لفظ اسی سے معرب ہے مسلمانوں نے جب یہ علاقے فتح کیے تو انہوں نے مفتوح اقوام پر کوئی نیا بار نہیں ڈالا بلکہ وہی دونوں قسم کے ٹیکس ان پر عائد کیے گئے جو شاہ ایران اپنی رعایا سے وصول کرتا تھا۔ جبکہ جنگ کے موقعہ پر جزیہ کے علاوہ شاہ ایران کی طرف سے عوام سے جبری ٹیکس بھی وصول کیے جاتے تھے۔ جزیہ اور اس کے متعلقہ احکام :۔ جزیہ کو چونکہ مستشرقین اور اقوام مغرب نے خاصا بدنام کر رکھا ہے لہٰذا اس کے متعلق چند تصریحات ضروری معلوم ہوتی ہیں :۔ ١۔ جزیہ صرف ان افراد پر عائد کیا جاتا ہے جو لڑنے کے قابل ہوں۔ غیر مقاتل افراد مثلاً بچے، بوڑھے، عورتیں معذور لوگ، صوفی اور گوشہ نشین قسم کے حضرات اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ جزیہ ادا کرنے کے بعد یہ لوگ دفاعی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں (جنہیں عرف عام میں اہل الذمہ یا ذمی کہتے ہیں) کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ ٢۔ جزیہ ان لوگوں کی مالی حالت کا لحاظ رکھ کر عائد کیا جاتا ہے چنانچہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے مجاہد سے پوچھا کہ شام کے کافروں سے تو سالانہ چار دینار لیے جاتے ہیں اور یمن کے کافروں سے صرف ایک دینار لیا جاتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس لیے کہ شام کے کافر زیادہ مالدار ہیں۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب الجزیۃ الموادعۃ) ٣۔ جزیہ کی وصولی میں انتہائی نرمی اختیار کی جاتی تھی اور سیدنا عمر کو اس سلسلہ میں دو باتوں کا بہت زیادہ خیال رہتا تھا۔ ایک یہ کہ جزیہ کی شرح ایسی ہو جسے لوگ آسانی سے ادا کرسکیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عراق کی مفتوحہ زمینوں پر خراج کی تعیین کے لیے سیدنا حذیفہ بن یمان اور سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہما جیسے اکابر صحابہ کو مقرر کیا جو اس فن کے ماہر تھے جب ان بزرگوں نے یہ حساب پیش کیا تو آپ نے ان دونوں کو بلا کر کہا کہ تم لوگوں نے تشخیص جمع میں سختی تو نہیں کی؟ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں۔ بلکہ وہ اس سے دگنا بھی ادا کرسکتے تھے۔ (کتاب الخراج ص ٢١) اور دوسری یہ کہ ہر سال جب عراق کا خراج آتا تو دس معتمد اشخاص کوفہ سے اور اتنے ہی بصرہ سے طلب کیے جاتے۔ سیدنا عمر ان کو چار دفعہ شرعی قسم دلا کر پوچھتے کہ رقم کی وصولی میں کسی شخص پر ظلم یا زیادتی تو نہیں کی گئی۔ (الفاروق ص ٣٢٦) ٤۔ جزیہ چونکہ دفاعی ذمہ داریوں کے عوض لیا جاتا ہے لہٰذا جو لوگ ایسی خدمات خود قبول کرتے ان سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ مثلاً ا۔ طبرستان کے ضلعی شہر جرجان کے رئیس مرزبان نے مسلمانوں کے سالار سوید سے صلح کی اور صلحنامہ میں بتصریح لکھا گیا کہ مسلمان جرجان اور طبرستان وغیرہ کے امن کے ذمہ دار ہیں اور ملک والوں میں سے جو لوگ بیرونی حملوں کو روکنے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے وہ جزیہ سے بری ہیں۔ (الفاروق ص ٢٣٩) ب۔ آذر بائی جان کی فتح کے بعد باب متصل کا رئیس شہر براز خود مسلمانوں کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں تمہارا مطیع ہوں لیکن میری درخواست یہ ہے کہ مجھ سے جزیہ نہ لیا جائے بلکہ جب ضرورت پیش آئے تو فوجی امداد لی جائے۔ چنانچہ اس کی یہ شرط منظور کرلی گئی۔ (الفاروق ص ٢٤٣) ج۔ عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ نے جب فسطاط فتح کیا تو مقوقس والی مصر نے جزیہ کی بجائے یہ شرط منظور کی کہ اسلامی فوج جدھر رخ کرے گی، سفر کی خدمت (یعنی راستہ صاف کرنا۔ سڑک بنانا۔ پل باندھنا وغیرہ) مصری سر انجام دیں گے۔ چنانچہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ جب رومیوں کے مقابلہ کے لیے اسکندریہ کی طرف بڑھے تو مصری خود منزل بمنزل پل باندھتے، سڑک بناتے اور بازار لگاتے گئے۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے سلوک نے تمام ملک کو گرویدہ بنا لیا تھا اس لیے قبطی خود بڑی خوشی سے یہ خدمات سر انجام دیتے تھے۔ (الفاروق ص ١٩٤) جزیہ پر اعتراض اور اس کا جواب :۔ اب ان متمدن اور مہذب مغربی اقوام کا حال بھی سن لیجئے۔ وہ جزیہ کو بدنام کرنے اور اسے ذلت کی نشانی ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ یہ لوگ فتح کے بعد مفتوح قوم سے اپنا سارا جنگ کا خرچہ بطور تاوان جنگ وصول کرتے ہیں۔ پچھلی چند صدیوں میں تو تاوان جنگ کے علاوہ سیاسی اور اقتصادی غلامی پر بھی مفتوح اقوام کو مجبور کیا جاتا رہا۔ البتہ دسری جنگ عظیم کے بعد سیاسی غلامی کو متروک قرار دے کر اس کے بدلے اقتصادی غلامی کے بندھن مضبوط تر کردیئے ہیں ان کے زرخیز ترین علاقہ پر ایک طویل مدت کے لیے قبضہ کرلیا جاتا ہے اور اس معاملہ میں انتہائی سختی سے کام لیا جاتا ہے تاکہ مفتوح قوم میں بعد میں اٹھنے کی سکت ہی باقی نہ رہ جائے۔ اسلام نے جزیہ کی ایسی نرم شرائط سے ادائیگی کے بعد نہ تاوان جنگ عائد کرنے کی اجازت دی ہے اور نہ ہی کسی طرح کی اقتصادی غلامی کی۔