إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۖ وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ
اے پیغمبر ! یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے تمہی (خلق اللہ کی ہدایت کے لیے) بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے کہ (ایمان و عمل کی برکتوں کی) بشارت دو، اور (انکار حق کے نتائج سے) متنبہ کردو (یعنی تمہاری دعوت تمام تر خدا پرستی اور نیک عملی کی دعوت ہے۔ پھر جو لوگ نشانیاں مانگ رہے ہیں اگر فی الحقیقت ان میں سچائی کی طلب ہے تو غور کریں، تمہاری دعوت سے بڑھ کر اور کون سی نشانی ہوسکتی ہے؟ جو لوگ (اپنی محرومی و شقاوت سے) دوزخی گروہ ہوچکے، تم ان کے لیے خدا کے حضور جوابدہ نہیں ہوگے (تمہارا کام صرف پیام حق پہنچا دینا ہے)
[١٤٢] مثلاً تمہارے پاس جو رسول آیا ہے۔ تم خود جانتے ہو اس نے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا تو کیا جو شخص کسی انسان سے جھوٹ نہیں بولتا۔ وہ اللہ پر جھوٹ تراش سکتا ہے؟ نیز تم یہ جانتے ہو کہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہی نہیں۔ اس کا کوئی استاد بھی نہیں پھر وہ ایسا کلام پیش کرتا ہے جس کے مقابلہ میں کلام لانے سے تم سب کے سب عاجز ہو تو کیا صرف یہی بات اللہ کے وجود، نبی کی نبوت اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا واضح ثبوت نہیں؟ مگر جو شخص ماننے کا ارادہ ہی نہ رکھتا ہو کوئی بھی نشانی اسے ایمان لانے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ [ ١٤٣] یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام صرف اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دینا ہے۔ اب اگر لوگ ایمان نہیں لاتے اور دوزخ کے مستحق ٹھہرتے ہیں تو اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ الزام نہیں۔